Published On: Fri, Nov 11th, 2011

زرداری اور ذوالفقارمرزامیں لڑائی شوگرملزکی ملکیت کے تنازعہ پرہوئی

Share This
Tags

دونوں دوستوں کے درمیان جاری لڑائی کی وجہ وہ شوگر ملز اور زمینں ہیں جو اس وقت مرزا کی ملکیت ہیں اور زرداری ان کی ملکیت اپنے نام کرانا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے کون کس کو تباہ کرتا ہے اور یہ شوگر ملز اور زمینیں کس کے نام پر منقل ہوتی ہیں؟

رپورٹ: رؤف کلاسرا
صدر زرداری اور زوالفقار مرزا کے درمیان لڑائی کم ہونے کی بجائے اب بڑھتے ہوئے ذ اتیات پر حملوں میں داخل ہو گئی ہے، اس کے دوران ہی کچھ قابل اعتماد زرائع یہ بھی دعوی کر رہے ہیں کہ دراصل مرزا نے اس وقت اعلان بغاوت کرنے کا فیصلہ کیا جب ایک دن انہیں زرداری صاحب نے کہا وہ وہ شوگر ملز اور زمینیں ان کے نام کردیں جو مرزا نے ان کے پیسے اور حمایت سے بنائی ہیں۔ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ مرزا کو سندھ کا وزیر داخلہ بنانا اور ان کی بیگم فہمیدہ مرزا کو سپیکر بنانا بھی دراصل پلان اے کا حصہ تھا کہ ایک دن وہ اپنے پرانے دوستوں سے وہ شوگر ملز اور زمینیں واپس لے سکیں گے جو وہ سمجھتے ہیں ان کی مالی حمایت سے بنائی گئی تھیں۔
سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ اس بات کو ماننے سے انکار کر دیں کہ دونوں دوستوں کے درمیان جاری لڑائی کی وجہ وہ شوگر ملز اور زمینں ہیں جو اس وقت مرزا کی ملکیت ہیں اور صدر زرداری ان کی ملکیت اپنے نام کرانا چاہتے ہیں۔ تاہم ان ذرائع نے اصرار کیا کہ اندر کی کہانی یہی ہے کہ صدر زرداری وہ شوگر ملز اور زمینیں واپس چاہتے ہیں جبکہ ذوالفقار مرزا نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ انہوں نے ان کی ملکیت واپس نہیں کرنی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ساری جائیداد چاہے وہ صدر زرداری کی مدد سے کیوں نہ بنائی ہو واپس کرنے سے وہ سڑک پر آجائیں گے۔ مرزا سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے حلوہ ہی نہیں کھانا تو پھر اندھے کس دن کے لیے بنے تھے۔
ذرائع جن میں سے ایک صدر زرداری کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، نے اس نمانئدے کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مرزا نے اس وقت اعلان بغاوت کیا جب اسے کہا گیا کہ وہ اپنی شوگر ملز اور زمنیں صدر زرداری کو دے دیں کیونکہ صدر صاحب سھجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ ان کی مدد سے بنایا گیا تھا لہذا اب جب کہ زوالفقار مرزا اس قابل ہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے دوست کی طرف سے دی گئی مالی امداد اور دیگر حما یتیں جن کی وجہ سے وہ اتنی بڑی جایئداد بنانے میں کامیاب ہوئے تھے، واپس کریں۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ جلد یا بدیر یہ بات سامنے آ جائے گی کہ مرزا اور زرداری لڑائی کیوں شروع ہوئی تھی اور وہی بات سامنے آئے گی کہ سارا جھگڑا شوگر ملز اور زمینوں کی ملکیت پر شروع ہوا تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور حکومت میں کرپشن محض اس پورے واقعے کو ایک ایسا رنگ دینے کے کوشش ہے جس سے دونوں دوستوں نے اصل بات کو چھپانے کی اب تک کامیا ب کوشش کی ہے۔
ذرائع نے کہا کہ جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں سندھ میں ذوالفقار مرزا اور صدر زرداری کے وفاداروں کے درمیان شروع ہونے والی لڑائی بڑی تیزی سے ذاتیات میں بدلتی جارہی ہے جس کا نیا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب جیو ٹی وی کی اینکر پرسن ثناء بچہ کے پروگرام’’ لیکن’’ میں مرزا اور منظور وسان نے حد کر دی۔ دونوں نے جہاں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے اور ایک دوسرے کے کچے چٹحھے کھولے وہاں انہوں نے ایک دوسرے کو ایسی گالیاں بھی دیں جو اس سے پہلے پاکستانی ناظرین نے نہیں سنی تھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوتے دیکھ کر ان دونوں لیڈروں کی پرفارمنس نے سب کو متاثر کیا لیکن اندر کھاتے منظور وسان کو بھی شاید نہ پتہ ہو کہ زرداری اور مرزا کی لڑائی کی اصل وجہ کیا ہے کیونکہ اب تک یہی سمجھا جارہا ہے کہ مرزا نے علم بغاوت ایم کیو ایم کے خلاف کیا تھا۔
ذرائع کے کہنا ہے کہ پہلے صدر زراری نے خود مرزا سے بات کی کہ وہ جائیداد جو اس نے اس کے پیسے اور حمایت سے بنائی تھی وہ واپس کر دے۔ تاہم صدر زرداری اس وقت حیران رہ گئے جب مرزا نے انکار کیا۔ دونوں کے درمیان اختلافات بڑھنا شروع ہوئے۔ تاہم صدر زرداری نے پھر بھی اس سارے مسئلے کو آرام سے حل کرنے کی کوشش کی اور اپنے ایک قریبی ساتھی کو کراچی بھیجا جو جا کر بلاول ہاوس ٹھہرے۔ زرداری کے اس قریبی ساتھی نے کراچی جا کر مرزا کو فون کیا کہ وہ ان سے فوری طور پر ملنا چاہتے تھے۔ تاہم مرزا نے بتایا کہ وہ اس وقت بدین جارہے تھے اور فورا بلاول ہاوس نہیں آ سکتے تھے۔ تاہم مرزا کو بتایا گیا کہ وہ واپس آ جائیں کیونکہ ان سے اہم معاملات پر بات کرنی تھی۔ جب ذ والفقار مرزا بلاول ہاوس پہنچے تو اسلام آباد سے گئے ہوئے زرداری صاحب کے اس دوست نے ان کو بتایا کہ یہ فیصلہ کیا جارہا تھا کہ انہیں سندھ سے سینیٹر بنا کر وفاقی وزیرداخلہ بنایا جا سکتا ہے۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ مرزا نے اس پیشکش کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا کیونکہ وہ رحمن ملک کو اذیت سے دوچار کرنا چاہتے تھے جن سے وہ اس وجہ سے چڑ چکے تھے کہ انہوں نے تین سال کے عرسے میں مرزا کو وزیرداخلہ سندھ کی حیثیت سے نہیں چلنے دیا تھا۔ مرزا کو اس بات میں ایک بڑا موقع نظر آرہاتھا کہ وہ رحمن ملک کی جگہ وزیر داخلہ بن کر اس سے اپنا بدلہ لے سکیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر زرداری انہیں وزیرداخلہ اس لیے بنانا چاہتے تھے کہ شاید اس طرح وہ شوگر ملزا اور زمنیوں کی ملکیت ٹرانسفر کرنے پر جلدی تیار ہوجائیں گے۔ اس بات کا علم مرزا کو نہ تھا کہ یہ آفر دراصل اس لیے کی جارہی تھی کہ اس کے بدلے میں انہیں شوگر ملز اور زمینیوں سے ہاتھ دھونا ہوں گے۔
تاہم جلد ہی مرزا کو احساس ہو گیا کہ انہیں وزارت داخلہ اور جائیداد سے میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ مرزا کو یہ بھی یقین نہیں تھا کہ اگر وہ شوگر ملز اور زمین دینے پر تیار ہو بھی گئے تو اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ وہ لمبے عرصے کے لیے وزیرد اخلہ رہیں گے کیونکہ رحمن ملک نے کچھ ایسی گولی صدر زرداری کو کھلائی ہوئی ہے کہ پورے ملک کی نفرت کے باوجود زرداری انہیں ہٹانے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اور تو اور وزیراعظم گیلانی بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کا اختیار رحمن ملک پر نہیں چلتا۔ لہذا مرزا نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی زمینیں اور شوگر ملز بچائیں جو ان کا دوست آج ان سے واپس لینے کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہا تھا۔ یوں مرزا نے علم بغاوت اٹھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر انہوں نے بغاوت نہ کی تو پھر ان سے شوگر ملزا اور زمنیں واپس لی جا سکتی تھیں۔ تاہم مرزا کو اس بات کا یقین تھا کہ اگر انہوں نے زرداری اور ایم کیو ایم کے خلاف یہ لڑائی شروع کی تو پھر زرداری صاحب کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا کہ وہ ریاستی زرائع استعمال کرتے ہوئے ان سے شوگر ملز اور زمینیں ان سے واپس لے سکیں کیونکہ اگر انہوں نے کوشش کی بھی تو یہ سمجھا جائے گا ان کے خلاف اس لیے انتقامی کاروائیاں کی جارہی تھیں کہ انہوں نے بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک مرزا کہ یہ حکمت عملی کامیاب جارہی ہے کیونکہ وہ معاملات کو جس نہج پر لے گئے تھے اور جس طرح ان کی لڑائیاں پی پی پی کے وزیروں سے اب ٹی وی چینلز پر لڑی جارہی ہیں ، اس کے بعد صدر زرداری کے لیے واقعی یہ آسان نہیں رہا کہ وہ ان سے گن پوائنٹ پر شوگر ملز اور زمینیں لے سکیں اور مرزا یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر زمینیں واپس لے لی بھی جائیں تو وہ ایک سیاسی شہید بن کر ابھریں۔ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ زوالفقار مرزا ایم کیو ایم سے کم لیکن صدر زرداری کی وجہ سے یہ بات بار بار دہراتے تھے کہ انہیں قتل کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اصل جھگڑا شوگر ملز اور زمینیوں کی ملکیت پر ہے جس پر ہو سکتا ہے معاملات ایک حد کے بعد بہت آ گے نکل جائیں۔ زرائع کے مطابق مرزا نے جہاں زرداری کو فوری طور پر شوگر ملز اور زمینیں واپس لینے سے کامیابی سے روکا وہیں انہوں نے زرداری کے لیے یہ کام بھی مشکل کر دیا کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کی جا سکے۔ مرزا نے اس لڑائی میں ان تمام رازوں سے پردہ اٹھا کر فائدہ اٹھایا جو ان کے علم میں اس وجہ سے تھے کہ وہ صدر زرداری کے بہت قریبی اور رازدان تھے اور بہت سارے خوفناک رازوں کے عینی گواہ کے علاوہ چند مقدمات میں ان کے ساتھ ملزم بھی تھے۔ یوں جب مرزا نے وہ سب راز عوام کو میڈیا کے ذریعے بتانی شروع کیں تو پھر لوگوں نے اس پر یقین بھی کرنا شروع کردیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان رازوں کا قسطوں میں انکشاف کر کے مرزا ایک طرح سے صدر زرداری کو بھی یہ پیغام بھیج رہے تھے کہ اگر ان پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا تو وہ بہت سارے اور بھی رازوں سے پردہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب بھی پلان اے کی ناکامی کے بعد جو انہوں نے مرزا کو وزیر داخلہ بنانے کا عندیہ دے کر شروع کیا تھا، اب اس کی ناکامی کے بعد پلان بی پر کام کر رہے ہیں جس میں اپنے قریبی ساتھیوں کے ہاتھوں مرزا پر ٹی وی چینلوں پر شدید حملے کرانا بھی شامل ہے۔ ذ رائع کا کہنا ہے کہ اس کے بعد پلان سی آئے گا جس میں کوشش کی جائے گی کہ یہ شوگر ملز اور زمیینں ہر قیمت پر زرداری صاحب کے نام منقل ہو سکیں کیونکہ وہ اس بات پر قائل ہیں کہ انہوں نے ہی مرزا صاحب کی برے وقت میں مدد کی تھی جس کے بعد ہی وہ شوگر ملوں اور زمینوں کے مالک بنے تھے۔ اب صدر سمجھتے ہیں کہ آج وقت آگیا تھا کہ وہ سب کچھ انہیں لوٹا دیا جائے خصوصا جب صدر زرداری نے انہیں سندھ کا وزیر داخلہ بنایا اور ان کی بیگم فہمیدہ مرزا کو سپیکر بنایا تھا۔
تاہم ذ رائع کے بقول مرزا صدر زرداری کے ان احسانات کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دے رہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگرزرداری نے ان پر برے وقتوں میں کوئی احسان کیا تھا تو انہوں نے بھی بہت سارے خطرات مول لے کر ان کے لیے بہت کچھ کیا تھا اور ان کے ساتھ قتل تک کے مقدمے بھگتے اور بڑا عرصہ مفرور بھی رہے۔
ایک سیاسی ذریعہ کا کہنا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ شوگر ملز اور ملز کی ملکیت پر شروع ہونے والی یہ لڑائی جو اب تک سیاسی اور کرپشن کا رنگ لیے ہوئے ہے، وہ کب اپنے اصلی رنگ میں ڈھلتی ہے خصوصا جب جلد یا بادیر یہ بات سامنے آئے گی کہ نواب شاہ کے ملٹری کالج پٹارو میں ایک ساتھ پڑھنے والے دو پرانے دوستوں کے درمیان شروع ہونے والی یہ لڑائی ایم کیو ایم یا حکومت کرپشن سے زیادہ شوگر ملز اور زمنیوں کی ملکیت کے لیے لڑی جارہی ہے، جس کے انجام کا دونوں پرانے دوستوں کو علم نہ ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے اتنے خوفناک راز جانتے ہیں کہ بڑی آسانی سے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے کون کس کو تباہ کرتا ہے اور یہ شوگر ملز اور زمینیں کس کے نام پر منقل ہوتی ہیں اور کون کب تک اور اس لڑائی میں سے فاتح ہو کرابھرتا ہے یا پھر دونوں دوست اسی طرح ایک دوسرے کے دلوں میں بچن سے لیکر اب تک کے محفوظ خوفناک رازوں سے اتنے خوف زدہ رہیں گے کہ ایک دوسرے کو دباؤ میں لانے کے لیے محض اپنے اپنے پیادوں کے زریعے صرف ٹی وی چینلز پر ہی لڑتے رہیں گے ؟
Displaying 4 Comments
Have Your Say
  1. kalasra sahib pl stop making table stories app jassy journalists ka abb koee mustaqeel nahi pakistan main plot lay liay abb ALLHA ALLHA KIA KARAIANY

    • Shabana Rahil says:

      Tumhaan kuoon mirchaan lagin Mr Imdad Hussain kia zardari naa tumhaan bhi koi imdad di haa jo is zabadast real story ko jhotla rahaa hoo.?

  2. yehe hmari qoom ka almea hy ky jhuty journlisto ke bato mn a kr lrna.

  3. imran says:

    yes army ki game hain jis nahi zulfaqar mirza ka shosha karha kia mqm ko controol karny kay liya jis trha mqm kay target killer ko aarest kia is lay mqm kamaosh hain

Leave a comment