پنجاب بینک اسکینڈل :ڈاکٹر بابر اعوان سمیت تمام بااثر افراد بچ گئے
سپریم کورٹ کے حکم پر بینک آف پنجاب بدعنوانی کے حوالے سے تیار کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں گرچہ بہت سے انکشافات کئے گئے ہیں لیکن سیاستدانوں اور اہم بیوروکریٹس سمیت تمام بارسوخ افراد کو بچاتے ہوئے دیگر افراد کے حوالے سے اس میں سخت اقدامات اٹھانے کی سفارش کی گئی ہے۔رپورٹ میں ہمیش خان کی تقرری اور اسے طاقتور بنائے رکھنے کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے کردار کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے بینک آف پنجاب سے 5 ارب روپے سے زائد کا قرض بینک کے ایک بزنس مین ڈائریکٹر کو دیا گیا کہ وہ گجرات کے چوہدریوں سے پھالیہ شوگر مل خرید سکے۔ رپورٹ میں اس وقت کی اعلیٰ نوکر شاہی اور صوبے کے سابق چیف سیکرٹریز کے بحیثیت رکن بینک آف پنجاب بورڈ قابل اعتراض کردار کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ تاہم ان میں سے کسی کے خلاف قانونی یا فوجداری اقدام کی سفارش رپورٹ میں نہیں کی گئی۔ مزید برآں تحقیقاتی ٹیم نے ہفتہ کو جورپورٹ پیش کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حارث اسٹیل کے مالکان کی جانب سے ڈوگر عدالتوں سے اپنے موافق فیصلہ حاصل کرنے کیلئے بابر اعوان سمیت تمام اعلیٰ وکلاء کو مبینہ طور پر رشوت دینے کے الزامات کی تحقیقات کیلئے وقت نہیں نکالا گیا۔ اس طرح تمام طاقت ور اور بارسوخ لوگوں کو بچا لیا گیا ہے۔اس کے برعکس سارا الزام ہمیش خان اور بینک آف پنجاب میں اس کے ماتحتوں ، حارث اسٹیل کے ڈائر یکٹروں اور بورڈ آف ڈائریکٹر ز کے رکن چار دیگر بزنس مینوں پرڈال دیا گیا ہے جن میں بینک کی رقم سے چوہدریوں سے پھالیہ شوگر مل خریدنے والے کالونی گروپ کے مالکان بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کچھ لوگوں کے کردار کے بارے میں بہت تفصیلات دی گئی ہیں، اس میں ان لوگوں کو چھوڑ کرجنہیں بڑے آرام سے بچا لیا گیا ہے دیگر کے حوالے سے بہت سخت رویہ اختیار کیا گیا ہے۔بینک آف پنجاب حارث اسٹیل بدعنوانی اس وقت منظر عام پرآئی تھی جب پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ ابھی چل رہی تھی لیکن میڈیا رپورٹس کو نظر انداز کرنے کا الزام ا س وقت کی صوبے کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور بیوروکریٹک قیادت کے بجائے ہمیش خان پر منتقل کر دیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ ماحصل کے طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہمیش خان اور اس کے افسران نے اس امر سے مکمل طور پر آگاہ ہونے کے باوجود کہ بینک کے کسٹمر حارث اسٹیل کا یہ قرض واپس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جھوٹ بولا اور بورڈ کو جان بوجھ کر گمراہ کیا ، اس ضمن میں بینک کے صدر کی ہوشیاری اس قدر متعلق معاملہ نہیں جتنا یہ کہ اس نے پورے بورڈ اور حکومت پنجاب کو پچھا ڑ ڈالا۔باوجود اس امر کے کہ اخبار ی رپورٹس سمیت اس امر کے بہ افراط شواہد تھے کہ بینک کے سرپرست اس کے نجات دہندہ نہیں بلکہ بھیڑکی کھال میں موجود بھیڑیئے ہیں جو کہ شہ رگ پر اپنے دانت گاڑ رہے ہیں‘‘۔ہر ملزم کے کردار کا الگ سے جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ میں سب سے پہلے ہمیش خان پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اسے غیر معمولی طریقے سے بینک آف پنجاب کا مینجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ کسی بھی دوسرے شخص کی نسبت اس پر بینک آف پنجاب میں ہونے والی لوٹ مار کی سب سے زیادہ براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اس نے اپنے جنرل مینجر اور دوسرے اسٹاف کی ملی بھگت سے شیخ محمد افضل سے مل کر سازش کی اور بینک میں اربوں روپے کا گھپلا کیا۔اس نے قرض دینے کی اجازت دینے اور قرض کی حد بڑھانے کے حوالے سے اپنے ا ختیارات کا غلط استعما ل کیا اور ہر اس بامعنی کوشش کو فعال طریقے سے روکا جواس فراڈ کو ابتدائی مرحلے میں روک سکتی تھی۔اس نے جورقم وصول کی وہ زیادہ تر پاؤنڈ اسٹرلنگ اور امریکی ڈالر کی شکل میں تھی۔ اس کے علاوہ شیخ محمد افضل نے ان رعایتوں ، لوگوں کو آمادہ کرنے اور فراڈ کی پردہ پوشی پر اسے قیمتی تحائف بھی دیئے۔ اس نے شیخ افضل کے ایماء پر برانچ مینجر اور دیگر اہم افسران کو خریدا اور انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیااور اس وقت تک بھی اس فراڈ کی پردہ پوشی کی کوشش کر تا رہاجب نیب نے اس کیس کی تحقیقات شروع کر دیں۔اس کے بعد رپورٹ بینک آف پنجاب کے بزنس مین ڈائریکٹر اور کالونی گروپ کے فرید مغیث شیخ پر توجہ مرکوز کر تی ہے اور نتیجہ پیش کر تی ہے کہ ’’اس نے قرض گیری کیلئے ڈائریکٹرز پر عائد ان پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مجرمانہ طور پر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جن کا اندراج بینک آف پنجاب ایکٹ کی شق19(4) میں ہے۔جب وہ بورڈ کا چےئر مین تھا اس نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے زیر ملکیت کالونی گروپ کے حق میں 5ارب 49 کروڑ 20 لاکھ روپے کا بڑا قرض منظور کرایا۔مذکورہ رقوم کا بڑا حصہ میسرز CSK لمیٹڈ(اس کا سابق نام پھالیہ شوگر مل تھا جو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کے خاندان کی ملکیت تھی ) کے حصص خریدنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ مذکورہ بالارعایات کے عوض فرید مغیث شیخ نے قرض کی اس تجویز کی حمایت کی، جس نے ہمیش خان کو اس قابل کیا کہ وہ اور اس کے شریک مجرم کریڈٹ لائن بڑھا سکیں اور حارث گروپ کے شیخ محمد افضل کے فراڈ پرمبنی اکاؤنٹس مضبوط بنا کر پیش کئے جا سکیں۔مذکورہ اقدامات ہمیش اور دیگر کی جانب سے بدعنوانی کے کور اپ کیلئے اکسانے کے مترادف تھا۔‘‘طاقتور لوگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے رپور ٹ میں پنجاب بینک کے ایک رکن بورڈ آف ڈائریکٹر بزنس مین خرم افتخار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نے پنجاب بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے حوالے سے امتناعی ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ایمٹٹیکس گروپ کے یونٹس کیلئے1 ارب79 کروڑ 80 لاکھ روپے کے قرض کیلئے کوششیں کیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فرید مغیث شیخ کی طرح اس نے بھی شیخ محمد افضل کے حق میں حارث گروپ کے جعلی اکاؤنٹس کو آگے بڑھانے کیلئے منظوری دی۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ وہ بھی ہمیش خان کی جانب سے ملنے والی رعایات کا عوضانہ دے رہا تھا۔اس نے بھی حارث اسٹیل بدعنوانی کیس میں بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اعتما د کو مجرمانہ طور پر مجروح کیا۔‘‘رپورٹ میں جس ایک اور شخصیت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے وہ APTM کا موجودہ چےئرمین ہے۔اس کے بارے میں رپورٹ میں یوں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے’’ دیگر ڈائریکٹرز کی طرح اس نے بھی اعتماد کو مجرمانہ طور پر مجروح کیا اور یہ کہ اس نے بھی بینک کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہی بینک آف پنجاب سے اپنی ملوں کیلئے قرض کی سہولت حاصل کی، جس کی مالیت 97 کروڑ 50 لاکھ روپے بنتی ہے۔‘‘پھر رپورٹ میاں محمد لطیف کے بارے میں سخت تبصرہ کرتی ہے۔ یہ صاحب بھی ایک اور بزنس مین ہیں اور چناب گروپ کے مالک اور بینک آف پنجاب کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ہیں، رپورٹ ان کے بارے میں کہتی ہے’’ اس نے بھی بینک کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے چناب گروپ کیلئے 1 ارب 27 کروڑ 10 لاکھ روپے کا قرض حاصل کرکے اعتماد کو مجرمانہ طور پر مجروح کیا۔‘‘بینک آف پنجاب کے سابق چےئر مین اور طاقت رور بیوروکریٹس کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے تئیں غفلت برتی اور نگرانی کے عمل میں خامیاں سرزد ہوئیں۔ان کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ’’ کامران رسول، حفیظ اختر رندھاوا ، شہزاد حسن پرویز، سلمان صدیق اور شہزاد علی ملک (جو کہ بزنس مینوں میں واحد استثنائی شخصیت ہے) اس دور میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے صدر رہے، جب ہمیش خان اپنے عہدے پرتھا۔ ان میں آخری شخصیت کے سوا سب نے خراب نگرانی کی اوربینک اور اس کے حصص یافتگان کے حوالے سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں زبردست غفلت برتی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ اگرچہ شہزاد علی ملک ایک معزز حیثیت کے حامل بزنس مین ہیں لیکن اس کے باوجود 2006 میں جب وہ ڈائریکٹر تھے تو انہوں نے سنجیدگی سے نگرانی کا وظیفہ نبھایا۔انہون نے حارث گروپ کیلئے قرض کی حد بڑھانے پر دستخط کئے تاہم یہاں یہ امر تسلیم کرنا ہوگا کہ مذکورہ بالا پانچ شخصیات میں سے صرف وہی ایک ایسی شخصیت تھے، جنہوں نے چےئر مین کی حیثیت سے اپنا موقف منوانے کی کوشش کی اور جیسا کہ قبل ازیں بتایا گیا ہے انہیں ہمیش خان کے ایماء4 پر اسکی پاداش میں بینک سے باہر کا رستہ دکھا دیا گیا۔دیگر چاروں چےئر مین جو سب کے سب ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے تھے اور اگرچہ وہ وقار کی حامل ایسی شخصیتیں ہیں جنہوں نے گریڈ22 میں ترقی پائی، انہوں نے کسی نہ کسی طریقہ سے ہمیش خان کی بالادستی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور جو بھی کاغذات ان کے سامنے پیش کئے جاتے رہے اور ہمیش خان کے کئے گئے فیصلوں پر صرف ربر اسٹمپ کی طرح اپنے دستخط ثبت کرتے رہے۔ان نتائج کی بناء4 پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے کسی ملزم سے پلی بارگین کی اجازت نہ دی جائے اور چونکہ ملزم شیخ محمد افضل اور اس کے شریک مجرم بہت سے سنگین فراڈ میں ملوث ہیں چنانچہ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ اس سے نہ صرف اصل زر بلکہ پینل ریٹ کے مطابق پورا سود وصول کیاجائے۔یہ کہ ہمیش خان ، ہارون عزیز ، شعیب قریشی ، عدیل خان، نعمان عارف اور ضیاالحق سمیت بینک کے ایگزیکٹو زملزمان کی فہرست میں موجود ہیں چنانچہ نیب کو یہ حکم دیاجائے کہ وہ ان سب(ماسوائے ہمیش خان کے جو کہ پہلے ہی جیل میں ہے) کی ضمانت کی منسوخی کیلئے اقدامات کرے۔یہ کہ ہمیش خان کسی بھی طریقے سے بونسز یاپرفارمنس بونس کا حقدار نہیں تھا، چنانچہ اس سے یہ رقم بھی وصول کی جائے اس سے صدارتی ایوارڈ برائے پرفارمنس بھی واپس لیاجائے۔یہ کہ ڈائریکٹرفرید مغیث شیخ اور خرم افتخار بھی بینک کے عہدیداروں کے ساتھ پورے طریقے سے حارث گروپ کو غیر قانونی مراعات کی فراہمی میں برابر کے ذمہ دار تھے چنانچہ ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق سلوک کیاجائے۔ یہ کہ چاروں ڈائریکٹرزیعنی فرید مغیث شیخ، خرم افتخار، اعجاز گوہر اور میاں لطیف جنہوں نے بینک آف پنجاب ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے صنعتی گروپوں کیلئے قرض کی سہولت حاصل کی، ا ن کے خلاف علیحدہ سے ریفرنس دائر کیاجائے۔ رپورٹ میں سابق وزیر اعلیٰ یاکسی چیف سیکرٹری کے کردار کے حوالے سے کوئی سفارش نہیں کی گئی۔