صحافی ہرصورت اپنے ذرائع خفیہ رکھیں،مظہر عباس
اسلام آباد/سٹاف رپورٹ
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق سیکرٹری جنرل مظہر عباس نے اپنے ذرائع کو خفیہ رکھنے کے صحافیوں کے حق کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے صحافی برادری سے کہا ہے کہ وہ اس حق کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کریں اور اس حق کیلئے لڑیں۔ اپنے ایک بیان میں مظہر عباس نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل انکوائری کمیشن کے سامنے حکومت پاکستان نے وفاقی وزیر داخلہ کی درخواست میں این آئی سی ایل کیس میں بعض میڈیا رپورٹس پر موقف اختیار کیا ہے کہ صحافی اپنی معلومات کے خفیہ ذرائع یہاں تک کہ گواہوں کے کٹہرے میں بھی ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ اس کو صحافی برادری ایک چیلنج کے طور پر قبول کرے اور اس دعوے کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ انکوائری کے دوران اٹھایا جانے والا یہ سوال تمام صحافیوں کیلئے اہم ہے اور اس کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ عدالت کو چاہئے کہ اس کا قانونی پہلو دیکھے کہ آیا خفیہ ذرائع کو ظاہر کرنا انصاف کے مفاد میں ہے۔ تاہم صحافیوں پر اپنے ذرائع کا تحفظ ایک بوجھ ہوتا ہے صحافی کا اپنے خفیہ ذرائع پر اعتماد اس کی راز داری اور اس کے نتائج باعث نزاع ہوتے ہیں کسی بھی صورت میں ایک ایماندار صحافی ذرائع کے اعتماد کو نہیں توڑتا یہاں تک کہ اسے جیل جانا پڑے یا جرمانہ ہو جائے۔ سچائی کا بوجھ اس کے کندھوں پر ہوتا ہے اپنی خبر اور اس کے ماخذ کے دفاع میں ناکامی کی صورت میں اس کی ساکھ داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ 1996ء میں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے چند ماہ بعد ایک انکوائری کمیشن جس کی سربراہی جسٹس ناصر اسلم زاہد کر رہے تھے نے روزنامہ ڈان کے رپورٹر سرفراز احمد کو ان کی بائی لائن خبر کے حوالے سے طلب کیا جس میں انہوں نے گولی چلنے اور موت کی وجہ کے بارے میں بتایا تھا۔ رپورٹر سے کہا گیا کہ وہ اپنے معلومات کے ذرائع کو افشاء کریں اور صرف اس بارے میں کم از کم تین سماعتیں ہوئیں۔ صحافی برادری اور رپورٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ذرائع ظاہر نہیں کریگا۔ رپورٹر نے صحافیوں سے بھرے کمرہ عدالت میں تین رکنی بنچ سے کہا کہ میں اپنے ذرائع کو افشاء نہیں کر سکتا اور اس نے جو اعتماد مجھ پر کیا اسے نہیں توڑ سکتا۔ یہاں تک کہ ’’ڈان‘‘ کے سینئر وکیل منیر ملک بھی رپورٹر کو معلومات دینے کے حوالے سے قائل نہ کر سکے۔ چونکہ رپورٹر کے ذرائع کو افشاء کرنے کے انکار کی وجہ سے انصاف کرنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں تھی، کمیشن نے ذرائع کو افشاء کرنے پر نہ تو اصرار کیا اور نہ ہی عدالت کی طرف سے سوالات کے جواب نہ دینے پر توہین عدالت کی کارروائی کی صحافی جن میں بہت سے سینئر لوگ بھی شامل تھے اس بات کے قائل تھے کہ سرفراز کسی بھی صورت ذرائع کو ظاہر نہیں کرے اور اس کیلئے وہ کسی بھی سزا کیلئے تیار تھا۔ 80ء کے اوائل میں جب میں ’’دی اسٹار‘‘ میں کام کر رہا تھا میں نے مبینہ طور پر الذوالفقار سے تعلق رکھنے والے ایاز سموں کی گرفتاری کے حوالے سے خبر شائع کی جو چالان پیش کیا گیا اس میں اور اخبار میں شائع خبر میں اس کی گرفتاری کی تاریخ کے حوالے سے تضاد تھا۔ کراچی کی سینٹرل جیل کے اندر قائم فوجی عدالت نے مجھے طلب کیا فوجی عدالت چاہتی تھی کہ میں اس ذریعے کا نام افشا کروں جس نے یہ خبر مجھے دی تھی مگر میں نے انکار کر دیا۔ عدالت نے میرا بیان ریکارڈ نہیں کیا ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں معلومات تک رسائی نہیں ہے۔ نام نہاد اطلاعات کی آزادی کا ایکٹ 2002ء4 معلومات تک رسائی فراہم نہیں کرتا جہاں ایسے قوانین ہوں جو صحافی کو خبریں حاصل کر کے انہیں عوام کے مفاد میں شائع کرنے سے روکیں تو صحافیوں کے لئے اس کے سوا اور راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ اپنے ’’روابط‘‘ اور ذرائع سے خبریں حاصل کریں۔ مطلب یہ کہ اسے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے۔ 1980ء میں ہمارے سینئرز نے اس پیشہ کی اخلاقیات کی واضح طور پر تشریح کر دی تھی۔ مثال کے طور پر پی ایف یو جے کے ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ معلومات جمع کرنے کی آزادی اور نیوز کے حقائق کی اشاعت، مثبت تبصرہ و تنقید یہ رہنما اصول ہیں جن کا ہر صحافی کو دفاع کرنا چاہئے۔ اسی وقت اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ خواہ دباؤ کے تحت اشاعت ہو ایک صحافی کی طرف سے رشوت قبول کرنا شدید ترین پیشہ ورانہ جرائم میں شمار ہو گی۔ 2002ء میں ایک مقدمہ جس میں ’’سڈنی مرر‘‘ اور آسٹریلین ایسوسی ایٹڈ پریس اور ان کے تین صحافی ملوث تھے سپریم کورٹ نے ایک دلچسپ آبزرویشن دی جس میں سپریم کورٹ ماسٹر میک ریڈی کا کہنا تھا کہ اگر صحافیوں کو ایسی معلومات کے ذرائع کی تفصیلات ظاہر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہو جس میں صحافیوں کی شہرت اور اہلیت کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو اسے موثر داد رسی دینا انصاف کے مفاد میں ہے مارک پیٹرسن کے میڈیا لاء کے مطابق صحافی اور ان کے ذرائع کے درمیان باہمی اعتماد کے تعلقات ہیں اس بات کا فیصلہ کرنا کہ شواہد کی کھوج نہ لگائی جائے کیونکہ اس سے خفیہ ذرائع کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ صحافیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ کسی مقدمہ بازی کی صورت میں اپنی معلومات کا دفاع کریں کیونکہ حقائق کا سارا بوجھ مجھ صحافی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں کسی خبر کو چیلنج کرنے والوں کے سامنے تمام آپشنز کھلے ہوتے ہیں کہ وہ اخبار یا چینل کے خلاف مقدمہ کریں۔ معذرت قبول کر لیں یا ترید کر دیں (اگر صحافی اپنی رپورٹس پر قائم نہ رہ سکے) یا مقدمہ کی پیروی کریں مگر کسی بھی صورت میں کوئی بھی شخص صحافی کو خفیہ ذرائع افشا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا نہ ہی اسے اپنے ذرائع کو ظاہر کرنا چاہئے۔