زرداری نے کیانی کی فوجی بغاوت روکنے کیلئے امریکہ سے مدد مانگی
زرداری نے منصور اعجاز کے ذریعے اوباما کو پیغام بھیجا کہ امریکہ اشفاق کیانی کو کمزور جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت سے روکے، نیشنل سکیورٹی ٹیم میں تبدیلیاں اور آئی ایس آئی کے طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلقات ختم کردیاجائیگا،پاکستانی صدر کی امریکی صدر کو پیشکش
اسلام آباد /سٹاف رپورٹ
دو مئی کو اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد صدر زرداری نے امریکی صدر باراک اوباما کو انتہائی خفیہ پیغام میں کہا کہ وہ پاکستانی آرمی چیف جنرل کیانی کو کمزور جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت سے روکے۔ پیغام میں صدر زرداری نے امریکی صدر کو یہ پیشکش بھی کہ فوج کو بغاوت سے روکنے پر وہ نئی نیشنل سکیورٹی ٹیم کو سامنے لائیں گے جو آئی ایس آئی کے طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلقات ختم کردے گی۔ یہ انکشاف برطانوی اخبار فنانشل ٹائمزنے کیا ہے ۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں صاف لگتا ہے کہ صدر زرداری جنرل کیانی کو ہٹانا چاہتے تھے۔ یہ پیغام پاکستانی نڑاد امریکی شہری اور بزنس مین منصور اعجاز کے ذریعے پہنچایا گیا۔ منصور اعجاز نے فنانشل ٹائمز میں لکھے اپنے آرٹیکل میں اعتراف کیا کہ اس نے یہ خفیہ پیغام ایک پاکستانی سینئر سفارت کار سے وصول کرکے امریکی جوائنٹ چیفس سٹاف کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچایا۔ اس پیغام کے ذریعے پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کو بائی پاس کیا گیا۔ پاکستانی سرزمین پر امریکی آپریشن سے حکومت کی اس قدر رسوائی ہوئی کہ صدر زرداری کو فوجی بغاوت کا خطرہ صاف نظر آنے لگا تھا۔ پاکستانی فوج کا مورال بھی گر گیا تھا۔ فوج اور آئی ایس آئی قربانی کے بکرے کی تلاش میں تھے کیونکہ اسامہ کو 6 سال چھپائے رکھنے پر ساری بین الاقوامی برادری آئی ایس آئی پر تنقید کر رہی تھی۔ ان حالات میں صدر زرداری دونوں کا آسان ہدف تھے۔ سینئر سفارت کار نے بزنس مین کو پیغام دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ پیغام کو مائیک مولن کو پہنچایا جائے کیونکہ مولن پاکستان کا دوست ہونے کے ناطے بہتر انداز میں پیغام کو صدر اوبامہ تک پہنچا سکتے ہیں۔ 10 مئی کو 2 بجے ایڈمرل مولن کو پیغام دے دیا گیا۔ اگلے روز پاکستانی سکیورٹی ٹیم اور مولن کے درمیان اجلاس وائٹ ہاؤس میں ہوا جس میں پاکستانی ٹیم نے مولن کی نصیحت اور وارننگ کو قبول نہیں کیا۔ 22 ستمبر کو الوداعی تقریب میں ایڈمرل مولن نے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بتایا کہ افغانستان میں 11 ستمبر کو نیٹو فورسز اور 13 ستمبر کو کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملوں کے بارے میں ٹھوس معلومات ملی ہیں کہ یہ حملے آئی ایس آئی کی مدد سے کئے گئے ہیں۔ یہ حملے ایبٹ آباد آپریشن کا جواب یا طالبان کو حکومت میں لا کر اسٹرٹیجک ڈیبتھ (تزویراتی گہرائی) حاصل کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ آئی ایس آئی کے ’’ایس ونگ‘‘ کو دہشت گردی کے فروغ کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ اوباما انتظامیہ کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کو بلیک لسٹ قرار دینے کا منصوبہ بے ضرر ہے کیونکہ اس سے ایجنسی کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کو دی جانے والی امداد نہیں رکے گی۔ ایجنسی کا ایس ونگ مبینہ طور پر ہر قسم کی مدد اسے فراہم کر رہا ہے جسے روکنا بہت ضروری ہے۔ آئی ایس آئی شدت پسندی کے فروغ کے سبب ہے اور یہ چیز پاکستانی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بن چکی ہے۔ امریکہ پاکستان کے اس ادارے کی سیاسی اور معاشی امداد بند کردے کیونکہ یہ انسداد انتہا پسندی کی عالمی کوششوں کو بے سود کر دیتا ہے۔ پاکستان کی امداد بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ آئی ایس آئی اور اس کے ایس ونگ کے کیسز کو پاکستان سے ختم کرنے کے لئے جامع پالیسیاں بنائی جائیں۔ پاکستانی عوام امریکہ کے دشمن نہیں اور نہ ہی حکومت دشمن ہے بلکہ دشمن یہ ادارہ ہے جو پاکستان میں اسلامی ذہنیت رکھنے والے عوام کے دلوں میں نفرت جگاتا ہے اور جہاد کی تمنا کو ہمسایہ ممالک اور اتحادیوں کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ پاکستانی ریاستی معاملات میں اس ادارے کا اثرورسوخ ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔
Assalam-o-Alikum
behtr hota kaa Army is nikami Govt kaa khilaf koi action laa hee lati
I think Army Should take over the GOV. and hang all currupt polititions specially zardari