چیف جسٹس کے کراچی بارے ریمارکس پر حکومتی حلقوں میں اضطراب
حکو مت کراچی میں کس منہ سے کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے، ہمارے فیصلے سے بہتری آئیگی،جسٹس افتخار
سٹاف رپورٹ/
کراچی میں بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ایسا فیصلہ دیا جائے گا جو بہتر ہو گا‘ فورسز الرٹ ہیں‘ مسئلے کا حل نکال لیا جائے گا‘ فیصلے کے بعد حکومت الرٹ ہو جائے گی۔ حکومت مفاہمت کرتی ہے مگر ایکشن نہیں لیتی‘ وزیر داخلہ کہتا ہے کہ اگر عدالت اجازت دے تو ٹارگٹ کلرز کے نام بتا سکتا ہوں۔ وزیر داخلہ کے اس بیان کے بعد حکومت اپنا کام کر لے تو عدالت کو مزید سماعت کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ آئی جی سندھ میں اتنی جرات ہے کہ وہ کہتا ہے کہ 40 فیصد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہیں لیکن یہ بات حکومت کو پتہ نہیں چلتی۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت پر آئینی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کا الزام ہے۔ وفاق کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ یہ جمہوریت ختم کرنے کے بہانے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں چھ سات حکومتیں بدامنی پر برطرف کی گئیں ایک حکومت کراچی میں بدامنی کی وجہ سے ختم ہوئی۔ کراچی میں 1310 لوگ مار دیئے گئے اور کہتے ہیں کہ حکومت ناکام نہیں ہوئی‘ حکومت کس منہ سے کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے‘ کیا یہ کامیاب حکومت ہے؟ دیکھنا ہے حکومت نے اپنی رٹ استعمال کی یا نہیں۔ عدالتی نوٹس کے بعد حکومت متحرک ہوئی ہے فیصلہ آجائے گا تو سب کچھ بہتری کی طرف بڑھے گا۔ اللہ کا شکر ہے سب جماعتیں امن چاہتی ہیں اگر دہشت گردوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں تو حالات بدل سکتے ہیں۔ بھتہ خوری بھی دہشت گردی کی تعریف میں آتی ہے۔ حکومت کو اپنی رٹ بحال کرنا ہو گی۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 17 سیاسی جماعتوں کے کردار اور رویہ کو واضح کرتا ہے ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جو آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے کیا ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو اس جماعت کا نام معلوم ہے؟ چیف جسٹس نے کہا انسداد دہشت گردی کے قانون پر عمل نہیں ہو رہا۔ جسٹس غلام ربانی کہا کہ ملزم دو افراد کے قتل کا اعتراف کرتا ہے جے آئی ٹی اس کے خلاف رپورٹ دیتی ہے لیکن گواہ کہاں سے آئے جسٹس سرمد نے کہا کراچی کا امن ایک مقصد کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا میں خود پنجابی ہوں لیکن مختلف زبانیں بولنے پر فخر ہے۔ یہ مفاد عامہ کا مقدمہ ہے۔ چرچل نے کہا تھا عدالتیں آزاد ہوں گی تو جنگ جیت جائیں گے چرچل کے اس بیان میں بڑی حکمت تھی لوگ مر رہے ہیں اس حالت میں عدالت کو کچھ تو کرنا ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا یہ ہماری جرات ہے کہ ہم سچ بول رہے ہیں چیف جسٹس نے کہا عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔ عدالتی معاون کی حیثیت سے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ فسادات کو لسانی فسادات کا نام دیا جاتا ہے۔ پشتو‘ اردو اور لیارین کے الفاظ میں شہریوں کو تقسیم کیا گیا بین الاقوامی سطح پر توہین آمیز مضامین لکھ کر ہمارا مذاق اٹھایا گیا تمام قومیتوں کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی مسائل حل ہو جائیں تو سب معاملات حل ہو جائیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ فتح محمد ملک نے کہا حکومت ناکام نہیں ہوئی ہم مرحلہ وار صورتحال کو کنٹرول کرتے آرہے ہیں اب حالات کنٹرول میں ہیں۔ نوازشریف کو دو سال اور بے نظیر بھٹو کو 6 مہینے کا وقت دیا گیا تھا وفاق کے وکیل بابر اعوان نے کہا بین الاقوامی اور علاقائی طاقتیں پاکستان کو ناکام ریاست قرار دینا چاہتی ہیں اگر کہا جاتا ہے کہ ہر چیز ناکام ہو گئی تو مجھے دلائل دیں ایٹمی طاقت ناکام نہیں ہو سکتی۔ اگر عدالت ریاست کے ناکام ہونے کا فیصلہ دیتی ہے تو اس کے بہت منفی نتائج ہوں گے۔ پاکستان اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے‘ مشرقی اور مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں یہ حالات ساڑھے نو برسوں میں خراب ہوئے، 16000 ایکڑ سرکاری اراضی پر مشرف دور میں قبضے ہوئے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ کیا آپ کو قبضہ چھڑانے میں 9 سال لگیں گے۔ بابر اعوان نے کہا کراچی میں امن کے لئے 13 بڑے اہم اقدامات کئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان اقدامات کا کیا فائدہ ہوا ایک ایک کر کے بتائیں کیا کراچی میں قتل و غارت گری رک گئی کیا ٹارچر سیل ختم ہو گئے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا جرائم اور بربریت میں فرق ہے چیف جسٹس نے کہا آپ حیرت انگیز معلومات دے رہے ہیں کہ نادرا مجرموں کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ کوئی خفیہ بات ہے تو ہمیں چیمبر میں آکر بتائیں چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے پوچھا نادرا نے کب سے مجرموں کا ریکارڈ رکھنا اور ڈیٹا فراہم کرنا شروع کیا آئی جی سندھ نے کہا دراصل مجرموں کا ریکارڈ ہم نادرا کو دیتے ہیں پولیس نے کوئی ڈیٹا نادرا سے نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب اچھا ہے۔ بابر اعوان نے کہا بعض لوگ گلاس کو آدھا خالی کہتے ہیں میں کہتا ہوں گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ آئی جی سندھ نے بتایا پولیس نے 35 بکتر بند گاڑیاں منگوائی ہیں۔ ایک موقع پر بابر اعوان نے کہا کہ آئین کے تحت سیاسی قیادت کے پرعزم ہونے کی امید ظاہر کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’’امید پر بیوہ کرتے جاو اور بچوں کو یتیم کرتے جاو‘‘ حکومت کی ناکامی یہ ہے کہ شہریوں کو تحفظ نہیں دیا جاتا‘ چھوٹی سے چھوٹی جماعت بھی ہڑتال کا اعلان کرتی ہے اور بدمعاشی کر کے گاڑیوں‘ پٹرول پمپوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں رہتا۔ بابر اعوان نے کہا 94ء‘ 96ء میں نصیر اللہ بابر کا آپریشن کراچی کے لئے بہترین حل تھا مگر حکومت ہٹا دی گئی۔ اسمبلی کو مدت پوری کرنی چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ بھی پڑھیں‘ اجمل پہاڑی کہہ رہا ہے کہ اس نے بھارت سے تربیت حاصل کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے اجمل پہاڑی کے بیان پر کیا کیا؟ بابر اعوان نے کہا کہ اجمل پہاڑی‘ اقبال رعد کیس میں پکڑا گیا تھا اور بری ہو گیا۔ بابر اعوان آج بھی دلائل جاری رکھیں گے۔ادھر معلوم ہوا ہے کہ چیف جسٹس کی طرف سے کراچی میں بدامنی کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران ان ریمارکس پر کہ ہمارے فیصلے سے کراچی کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ حکومتی حلقے سخت اضطراب میں لگتے ہیں۔ حکومتی حلقوں میں سپریم کورٹ کے امکانی فیصلے پر بحث مباحثہ اور چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ ایک اہم مذہبی سیاسی جماعت کے رہنما نے حکومت کی ایک انتہائی اہم شخصیت سے بات چیت کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ سپریم کورٹ کراچی کے حوالے سے کوئی سخت فیصلے کر سکتی ہے۔ ادھر ایم کیو ایم بھی سپریم کورٹ کے امکانی فیصلے پر تذبذب اور اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہے۔