اقتدار کا مزا، اے این پی، محاذ آرائی کے باوجود حکومت چھوڑنے پر تیار نہیں
سٹاف رپورٹ/
عوامی نیشنل پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ سے محاذ آرائی کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے علیحدہ نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم سے متعلق ایشوز پر بھی اے این پی کے حکمراں پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ اے این پی کے ایک اہم رہنماء نے پارٹی کے حالیہ اجلاس میں فیصلوں کے حوالے سے بتایا کہ ان کی پارٹی نے ایم کیو ایم کی مخاصمت سمیت سندھ سے متعلق امور پر اپنے تحفظات کے باوجود محاذ آرائی سے گریز کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اے این پی کو وفاق اور صوبے میں اپنی پارلیمانی قوت کا بخوبی اندازہ ہے اور خیبر پختون خواہ میں بھی وہ پیپلز پارٹی سے محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اے این پی کے سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کا مشترکہ پارلیمانی پارٹی اجلاس اسفندیار ولی کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں پارٹی سربراہ نے اقتدار سے علیحدہ نہ ہونے پر زور دیا تاہم اے این پی کے سیکریٹری اطلاعات سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بارے میں میڈیا کو بریف کر دیا گیا ہے تاہم اس میں ہونے والے فیصلوں کی تفصیلات پریس کانفرنس میں بتائی جائے گی لہٰذا وہ پارٹی موقف بیان کرنے یا سوالات کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تاہم ذرائع کے مطابق اے این پی اپنی پارلیمانی طاقت کے بل بوتے پر وفاق اور سندھ میں حکمراں جماعت کو دھچکا پہنچانے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی خیبر پختون خواہ میں وہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر اپنی حکومت برقرار رکھ سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں شمولیت کے بعد پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت کے بغیر بھی حکومت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اے این پی کے 342 رکن قومی اسمبلی میں 13، سو رکنی سینیٹ میں 6 اور 168 رکنی سندھ اسمبلی میں دو ارکان ہیں۔ 148 رکنی خیبر پختون خواہ اسمبلی میں اے این پی کے 48 ارکان ہیں جبکہ وزیراعلیٰ کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے 62 ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ اس طرح اے این پی کو سادہ اکثریت کے لئے بھی 14 ارکان کی کمی کا سامنا ہے۔ صوبائی ایوان میں پیپلز پارٹی کے 30، ن لیگ کے 9، ق لیگ کے 6، جے یو آئی (ف) کے 14، شیرپاؤ گروپ کے 6، جے یو آئی (س) کے ایک اور 10 آزاد ارکان ہیں۔
اے این پی غدار جماعت ہے اور وہ اپنے مقاصد کے لئے اقتدار سے کس طرح الگ ہو سکتی ہے ۔ جب تک اس کا ایجنڈا پورا نہیں ہو گا وہ اقتدار سے چمٹی رہے گی ۔ وکی لیکس نے بتایا ہے کہ 2008کے الیکشن سے پہلے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی امریکہ کے دورے پر گئے تھے تو سی آئی اے کے حکام سے ملاقات کے لئے منتیں کرتے تھے تاکہ پاکستان میں انہیں کوئی رول دیا جا سکے ۔ اب یہ بات بھی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اگر آپ نے بھارت جانا ہے اور آپ کے پاس اے این پی کے کسی لیڈر کی سفارش ہے تو ویزہ لگ جائے گا ورنہ ایک ماہ ذلیل ہوتے رہیں اور ویزہ پھر بھی نہیں لگے گا ۔ان لوگوں کو جتنا بے نقاب کیا جائے اتنا ہپی عوام کا بھلا ہو گا ۔
محمد ثاقب