مغوی لڑکوں کی بازیابی کیلئے حکومت اور قبائلی عمائدین کی کوششیں بے سود
سٹاف رپورٹ/
پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ باجوڑ ایجنسی میں غلطی سے افغان سرحد پار کر کے مقامی طالبان کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 25لڑکوں کی رہائی کے لئے ماموند قبائل کے عمائدین افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ ماموند قبائل کے گرینڈ جرگہ نے کنڑ کے افغان عمائدین سے رابطے تیز کر دیئے جبکہ کالعدم تحریک طالبان کے نائب امیر مولوی فقیر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یرغمال بچوں کے مستقبل کا فیصلہ شوریٰ کرے تاہم وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرینگے اور کوئی ایسا حل تلاش کرینگے جس سے نوجوانوں کے والدین بھی خوش ہوں اور عوام اور طالبان کے درمیان مسئلے بھی حل ہو جائیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے نائب امیر مولوی فقیرنے برطانوی نشریاتی ادارے کو ٹیلی فون پر بتایا کہ اس مسئلے کے حل میں تھوڑا وقت لگے گا، عوام کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ حکومت کے کہنے پر کمیٹیاں بنا لی ہیں، قوم کو چاہیے تھا کہ حکومت سے کہتے کہ کمیٹیاں بنانے سے طالبان کے ساتھ مسائل پیدا ہوں گے۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ حکومت یہ تاثر دینا چاہتی تھی کہ باجوڑ میں امن ہے اور اسی لئے گاڑیوں میں اتنے زیادہ بچے سیر و تفریح کیلئے لے آئے۔ طالبان کی پکڑ دھکڑ سے جان بچاکر بھاگ آنیوالے 18سالہ نوجوان وحید اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ تقریباً 500 افراد سرحد پر پرفضاء مقام پر تفریح کیلئے گئے تھے، پاک فوج نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن لوگ نہ مانے اور آگے چلے گئے۔ ایک مغوی کے والد محمد جان نے بتایا کہ جب سے ان کا بیٹا اغواء ہوا ہے ان کے گھر میں ایک ماتم ہے اور تمام گھر والے کھانا بھی نہیں کھاتے۔