مغلیہ خاندان کی آخری بہوچار سوروپے مہینہ پر زندگی گزارنے پر مجبور
سلطانہ بیگم کے پاس بار ہا ایسے مواقع آئے جب ان سے ملنے کے لیے آنے والوں نے انہیں غریب ونادار سمجھ کر کچھ دینا چاہا ہے ‘ لیکن مغلیہ تاجدار کی آخری بہونے بھیک لینے سے انکار کر دیا
مغلیہ سلطنت کے جاہ وجلال سے تاریخ کے اوراق مزین ہیں ۔ مغل سلاطین نے اپنے کارناموں سے ہندوستان کی عظمت میں چار چاند لگاے ۔ اس ملک کی سرز مین پر ایسے باغات لگائے جن کے پھولوں کی مہک سے آج بھی اس ملک کی فظا معطر ہے ۔ مغل سلاطین اور ان کے خاندان کے عام افراد اسی ملک میں محو آرام ہیں ‘ لیکن خاندان مغلیہ کے جو افراد بقید حیات ہیں ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے ‘جن کے آباؤ اجداد نے ملک پر حکومت کی تھی اور گنگا جمنی تہذیب کو مہکایا تھا ۔ آج وہ کسمپرسی کے ایسے عالم میں ہیں ‘ جنہیں دیکھ کر عبرت ہوتی ہے اور یہ حقیقت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔ مغلیہ خاندان کے باقی ماندہ افراد کو دیکھ کر زندگی کی اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ زمانہ کبھی ایک حالت پر نہیں رہتا۔ قومیں جب خو د کو عیاشی اور جہالت کی نذر کر دیتی ہیں ‘ تو پھر انجام یہی ہوتا ہے جو آخری مغل کی آخری بہو سلطانہ بیگم کا ہے ۔ آباؤ اجداد کی غلطیوں کی پاداش میں سزا سلطانہ بیگم کو مل رہی ہے۔ کولکاتہ کے گنجان مسلم علاقہ میں سلطانہ بیگم ایک تنگ وتاریک مکان میں رہتی ہیں ۔ مکان میں سورج کی روشنی اور تا زہ ہوا کا گزر برائے نام بھی نہیں ہے۔ ان کے دروازے تک پہنچنے کے لیے میڈیا کے لوگوں کو سخت تعفن کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے جاہ وجلال کا تصور میڈیا کی ٹیم پر اس درجہ حاوی تھا کہ طوعاوکرہا یہ لوگ سلطانہ بیگم کے دروازے تک پہنچ گئے۔ یہ اتفاق تھا کہ سلطانہ بیگم سے ہی سب سے پہلے ان کا سامنا ہوا‘ جب میڈیا کی ٹیم نے سلطانہ بیگم کو اپنے بارے میں بتایا تو انہو ں نے خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا اور اس بات کے لیے معذرت کی کہ کمرہ تنگ وتاریک ہے اوعر انہیں مہمانوں کو اندر آنے کے لیے کہتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
سلطانہ بیگم سے جب کہا گیا کہ وہ اپنے بارے میں بتائیں کہ ان کا تعلق کس خاندان سے ہے اور کو لولکاتہ میں کب سے مقیم ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ مغلیہ خاندان کی چشم وچراغ ہیں اور ان کا تعلق لال قلعہ سے ہے ۔ وہ آخری مغل تاجدار کی آخری بہو ہیں۔ ان کی لڑکیاں ہیں اور اب ان کی موت کے بعد کسی کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہو سکے گا کہ وہ خود کو مغلیہ خاندان کی بہو کہہ سکے ۔ میڈیا کی ٹیم نے معلوم کیا کہ آپ آخرکس بنیاد پر یہ دعوی کرتی ہیں کہ آپ آخری مغل تاجدار کی آخری بہو ہیں۔ سوال پر ان کی آنکھیں دبدبا گئیں۔ چند منٹ میں خود کو سنبھالنے کے بعد وہ کمرہ میں گئیں اور ایک بڑا سا بنڈل اٹھا کر لے آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ تاریخ کے اوراق کے اس بنڈل کو انہو ں نے اپنی جان سے زیادہ حفاظت سے رکھاہے ۔ مکان کے باہر بنے ایک چبوترے پر رکھ کر جب انہوں نے وہ بنڈل میڈیا کے نمائندوں کے روبروکھولا تو امیڈیا کی ٹیم حیران وششدر رہ گئی ۔ ہمیں ایسے کاغذات نظر آئے ‘ جو اس سے پہلے ہم نے کبھی دیکھے ہی نہ تھے ۔ نہایت پختہ تحریر تھی ‘ جو سنہری حروف میں لکھی ہوئی تھی ۔ سلطانہ بیگم نے بتایا کہ وقتا فوقتا ان کے پاس میڈیا کے لوگ آتے رہتے ہیں ۔ ان کی اور ان کے بچوں کی فلم بنا کر لے جاتے ہیں۔زبانی طور پر جمع خرچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ‘ لیکن ان کی تباہ حالی کو دور کرنے کے لیے ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سلطانہ بیگم شدید طور پر مایوسی کا شکار ہیں ۔ انہوں نے میڈیا کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مغلیہ سلاطین نے ہندوستان کو نشان جنت بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ اس کو ایک مثالی ملک بنادیا۔ خاص طور پر آخری مغل بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے انہوں نے اپنی جان قربان کر دی ۔ ملک آزاد ہوا‘ جن لوگوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا تھا ان کو نوازا گیا ‘ لیکن مغلیہ خاندان کے افراد کے ساتھ حکومت کا رشتہ معاندانہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغلوں کے بارے میں یہ تصور کر لیا گیاہے کہ یہ مسلمان تھے اور ہندوستان پر مسلمانوں کا حق وہ نہیں ہے ‘ جو دوسروں کا ہے ۔ اسی وجہ سے مغلیہ خاندان کے افراد کو ہمیشہ ہی سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ جبکہ سابق راجہ ومہاراجہ کی اولادوں کو تلاش کر کے حکومت فخراً انہیں عوام کے سامنے پیش کرتی ہے اوران پر نوازشات کی بارش کی جاتی ہے ۔ لیکن سلطانہ بیگم کی درخواستوں کو ابھی تک قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا ہے ‘ جس کی وجہ ہے اس کو تنگدستی کی ایسی زندگی بسر کرنی پڑ رہی ہے جو قیدیوں کی زندگی سے بھی بدترہے۔
سلطانہ بیگم نے بتایا کہ انہیں 400روپے ماہانہ کی آمدنی سے اپنی اور بچوں کی زندگی چلانی پڑتی ہے ۔ کہاں وہ دور حکمرانی تھا‘ جب مغل خواتین کے چشم ابرو کے اشارے سے تقدیروں کے فیصلے ہوا کرتے تھے اور کہاں صورتحال اب یہ آگئی ہے کہ سلطانہ بیگم مقروض ہے ار باوجود سخت محنت کے بھی وہ اپنی آمدنی میں اضافہ نہیں کر سکی ہے ۔ لوگ ان کے تاریخی سرمایہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں ‘انہیں اور ان کے خاندان کے افراد کو تماشہ سمجھ کر دیکھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ مغربی بنگال کی حکومت نے کئی مرتبہ ان کو مدد دینے کا وعدہ کیا۔ سلطانہ بیگم کے مطابق کبھی کبھی ان کو ایسا لگا کہ دور جموریہ میں ان کی زندگی سے اندھیرا دور ہوجائے گا ‘ وہ لال قلعہ میں جا کر تو آباد نہیں ہو سکیں گی ‘ لیکن اتنا ضرور ہوجائے گا کہ ان کی غربت دور ہو جائے اور وہ عام انسانوں کی طرح سکون کی زندگی حاصل کر سکیں ۔ لیکن ان کا یہ خواب دہا ئیوں کے بعد سے اب تک حقیقت نہیں بن سکا ہے ۔ البتہ صورتحال میں تبدیلی اگر کوئی آئی ہے تو وہ صرف اتنی ہے کہ سنہری وعدوں کا سلسلہ اور زیادہ دراز ہو گیا ہے ۔ تحقیقات کے لیے جو لوگ آتے ہیں وہ پہلے لوگوں کے مقابلہ میں مغل خاندان کے افراد کی تباہ حالی کے بارے میں زیادہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ۔
سلطانہ بیگم کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق جب الیکشن آتا ہے تو یا کوئی اور ایسا مرحلہ آجاتا ہے جہاں ان کا نام لے کر فائدہ حاصل کرنا مقصود ہو تو انہیں سلام کرنے آنے والے لوگ ان کے تنگ وتاریک گھر تک آجاتے ہیں۔ برسراقتدار گروپ اور حزب مخالف گروپ دونوں اس معاملے میں ایک جیسی پالیسی اپناتے ہیں ۔ غریب جہاں ہیں‘ وہ وہیں رہتے ہیں۔ مایوس نگاہوں میں امیدوں کے چراغ روشن کرنے میں تمام سیاسی جماعتیں ایک سے ایک بڑھ کر کارنامے انجام دیتی ہیں ‘ لیکن اس سے حاصل کچھ ہیں ہوتا۔ آخری مغل تاجدار کی آخری بہو نے زمانے کی تبدیلی کے تعلق سے کہا کہ ان کا دور حکومت ختم ہو چکا ہے اور اب ایک ایسا دور آگیا ہے کہ جو ماضی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ پر خطر اور پیچیدہ ہے ۔ اب شرافت اور عزت ونفس کے کوئی معنی نہیں رہے ۔ اب حکومتیں سیاسی وعدوں کی بنیاد پر چلتی ہیں ‘ جبکہ مغل دور حکومت میں سلاطین کو اس بات کا لحاظ رکھنا پرتا تھا کہ وہ رعایا کی خبر گیری کو اپنی زندگی کا اولین مقصد سمجھیں‘ چونکہ ان کو یقین تھا کہ ان سے ان کی زندگی کے بارے میں مواخذہ کیا جائے گا‘ لیکن جمہوری نظام حکومت میں اس طرح کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ‘ بلکہ برسراقتدار گروپ ہر وقت اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ حکمرانی کی مدت پوری ہونے پر نہ جانے دوبارہ اسے اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا یا نہیں ۔ ایسی حالت میں ہوس پرسی ‘مفاد پرستی اور دولت پرستی ہی برسر اقتدار گروپ کا مقصد ہوتا ہے ‘ جبکہ مغلیہ دور حکومت میں بہت سی خامیوں اور غلطیوں کے باوجود خدا پرستی اور خداترسی کو سب سے اونچا مقام حاصل تھا۔
سلطانہ بیگم نے کہا کہ ان کی آمدنی 400روپے ماہوار ہے ۔ جس میں بنیادی اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے ۔ یہ آمدنی غریبی کی لائن سے نیچے ہے ۔ اس کے باوجود سلطانہ بیگم کو عزت نفس کا لحاظ بہت زیادہ ہے۔ بار ہا ایسے مواقع آتے رہے ہیں ‘ جب ان سے ملنے کے لیے آنے والوں نے انہیں غریب ونادار سمجھ کر کچھ دینا چاہا ہے ‘ لیکن مغلیہ تاجدار کی آخری بہونے بھیک لینے سے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آباؤ اجداد نے اشرفیاں لٹائی ہیں ۔ ان کے انعام وکرام کی بارش سے بھکاری تو نگربن گئے ۔ اب یہ کس قدر غیرت کی بات ہے کہ لوگ ترس کھا کر بھیک دیں اور وہ اسے قبول کر لیں۔ ناداری کے عالم میں بھی سلطانیہ بیگم کا جاہ وجلال ان کے چہرہ پر نظر آتا ہے۔ وہ فقیری کی حالت میں بھی امیرانہ مزاج رکھتی ہیں ۔ ان کے پڑوس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی سائل گلی میں آتا ہے تو وہ اس کو آواز دے کر بلاتی ہیں اور اسے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتیں ۔مشکل سوالات کے جواب اس طرح دیتی ہیں کہ میڈیا کے لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سلطانہ بیگم کے سر پر تاج رکھا جانا چاہئے ۔ چونکہ وہ آخری تاجدار ہند کی آخری بہو ہیں۔ سلطانہ بیگم کا نام لے کر سیاست کا بازار گرم ہونے لگا ہے۔ حکومت مخالف لوگ پوچھتے ہیں کہ غریبوں کو رجھانے کے لیے بہت سے منصوبے بنائے گئے ہیں اور حکومت نے اپنی سخاوت کا ڈنکا بجوانے کے لیے بے دریغ دولت خرچ کی ہے ‘ تاکہ غریبوں کے ووٹ حکومت کی جھولی میں آتے رہیں ‘ لیکن سلطانہ بیگم اور مغل خاندان کے افراد کے لیے حکومت کیوں آنکھیں بند کئے رہی ۔ بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ آخری مغل کی آخری بہو کو کیا ملتا ہے۔
shameful for indians
Its very critical condition.The indian incompetent government should take notice of it.