چیمپئنز لیگ‘ پاکستان کو پھر نظر انداز کردیا گیا
چیمپئنز لیگ کے تیسرے ایڈیشن کے لیے فارمیٹ اور شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے جس میں پھر پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ پاکستان واحد اہم ٹیسٹ رکن ہے جس کی ڈومیسٹک T20 ٹیم کو چیمپئنز لیگ سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ جس کی واضح وجہ بھارت کا اثر و رسوخ ہے جو ایک جانب پاکستانی کھلاڑیوں کو انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) میں شامل ہونے نہیں دے رہا تو دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے تمام دروازے بند کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان میں T20 کرکٹ کتنا مقبول ہے اس کا اندازہ 2010ء4 کے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے فائنل میں موجود تماشائیوں کو دیکھ کر ہوسکتا ہے۔ چیمپئنز لیگ کے نئے فارمیٹ کے مطابق 6 ٹیمیں کوالیفائنگ راؤنڈ کھیل کر حتمی مرحلے تک پہنچیں گی۔ اس مرحلے کے تمام میچز 19 سے 21 ستمبر تک کھیلے جائیں گے۔ کوالیفائنگ راونڈ کی 6 میں سی3 ٹیمیں ان 7 ٹیموں کے ساتھ حتمی مرحلہ کھیلیں گی جن کے میچز23 ستمبر سے 9 اکتوبر تک حیدرآباد سمیت بنگلور، کولکتہ اور چنئی میں ہوں گے۔ حتمی مرحلے میں 10 ٹیموں کو 5،5 کے دو گروپس میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر گروپ کی سرفہرست دو ٹیمیں سیمی فائنل تک پہنچیں گی۔ کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کے لیے جن ٹیموں کو مدعو کیا گیا ہے ان میں آئی پی ایل میں چوتھے نمبر پر آنے والی کولکتہ نائٹ رائیڈرز، کیریبین ٹی 20 چیمپئن ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو اور نیوزی لینڈ کے مقامی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی فاتح آکلینڈ شامل ہیں۔ سری لنکا کی ٹی ٹوئنٹی لیگ کی فاتح اور انگلستان کی دو ٹیمیں بھی کوالیفائنگ راؤنڈ میں حصہ لیں گی۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ جس نے چند روز قبل ہی سری لنکا کی کرکٹ لیگ کو ’نجی لیگ‘ کہہ کر اپنے کھلاڑیوں کو شرکت سے روک دیا تھا، اسی کی فاتح ایک ٹیم کو وہ چیمپئنز لیگ ٹی 20 میں کھلانے پر رضامند ہے۔ اس سے بھارت کے دہرے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔7 ٹیمیں جو پہلے ہی چیمپئنز لیگ میں پہنچ چکی ہیں، ان میں آئی پی ایل کی سرفہرست تین ٹیمیں چنئی سپر کنگز، رائل چیلنجرز بنگلور اور ممبئی انڈینز، آسٹریلیا کی بگ بیش کی فاتح اور رنر اپ ساؤتھ آسٹریلیا ریڈ بیکس اور نیو ساؤتھ ویلز بلیوز اور جنوبی افریقا کے پرو20 کی فاتح اور رنر اپ واریئرز اور کیپ کوبراز شامل ہیں۔ توقعات کے عین مطابق اس مرتبہ بھی چیمپئنز لیگ کی انتظامیہ، جو بھارت، آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے کرکٹ بورڈز پر مشتمل ہی، نے پاکستان کی کسی ٹیم کو مدعو نہیں کیا حالانکہ ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں مایوس کن کارکردگی کے باوجود پاکستان ٹی ٹوئنٹی طرز میں دنیا کی بہترین ٹیم ہے جس نے 2007ء میں فائنل تک رسائی حاصل کی اور 2009ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا اعزاز حاصل کیا۔ اب تک صرف ایک مرتبہ یعنی 2010ء4 میں وہ فائنل تک نہیں پہنچ پائی، جب ویسٹ انڈیز میں منعقدہ میگا ایونٹ کے سیمی فائنل میں مائیکل ہسی کی شعلہ فشاں اننگز نے اسے ٹورنامنٹ سے باہر کردیا۔ اس کی تین ٹیمیں سیالکوٹ اسٹالینز، کراچی ڈولفنز اور لاہور لائنز دنیا کی کسی بھی بہترین لیگ میں کھیل سکتی ہیں۔ دوسری جانب انتظامیہ کی بھارت نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی پی ایل سے یقینی طور پر تین اور ممکنہ طور پر چار ٹیموں کو ٹورنامنٹ میں کھلایا جائے گا، یوں آئی سی سی کا منظور شدہ ایک ٹورنامنٹ مکمل طور پر ’منی آئی پی ایل‘ بن جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے بنائی گئی آئی سی سی کی کمیٹی بھی چپ سادھے بیٹھی ہے۔ یہ کمیٹی مارچ 2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پیش آنے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی تھی جس کا مقصد بین الاقوامی کرکٹ سے محروم ہونے کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے کام کرنا تھا لیکن 13 ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی ٹیمیں ہونے کے باوجود پاکستان کی ایک ٹیم کو بھی کی شمولیت سے روکے رکھنا بھارتی کرکٹ بورڈ اور چیمپیئنز لیگ کی انتظامیہ میں شامل دیگر بورڈز سمیت آئی سی سی اور اس کی بنائی گئی کمیٹی کے تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ باضابطہ طور پر تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن معروف ویب سائٹ کرک انفو کا پی سی بی کے ایک عہدیدار کے حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستانی بورڈ اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ رواں ماہ ہانگ کانگ میں ہونے والے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے سالانہ اجلاس میں اس مسئلہ کو اٹھائیں گے۔ یاد رہے 2008ء میں اس وقت کی قومی ٹی ٹوئنٹی چیمپئن سیالکوٹ اسٹالینز کو ٹورنامنٹ کے پہلے ایڈیشن کے لیے مدعو کیا گیا تھا لیکن ممبئی کے دہشت گرد حملوں کے بعد اسے روک دیا گیا اور 2009ء سے اب تک پاکستان کی کسی ٹیم کو اس ٹورنامنٹ کے لیے مدعو نہیں کیا گیا۔