Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

ریمنڈکیس،ورثاءکو20کروڑ،باقی85کروڑکی رقم کس نےوصول کی؟

Share This
Tags

قوم کا جذ بات کا خون کرنے کی ذمہ دار صرف  وفاقی اور صوبائی حکومت ہی نہیں بلکہ وہ تمام افراد اور ادارے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ملک اور قوم کی قسمت کا فیصلہ  کرنےمیں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کے دل و دماغ میں اہلیت نام کی کوئی چیز بھی نہیں  ہے

مقبول ارشد
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے ۔ ایک امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ’ ’پاکستانی 10ڈالر کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔‘‘
اورریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں بھی ہم نے ایسا ہی کیا ۔
پاکستانی حکومت ریمنڈ ڈ یوس کی رہائی کے لئے امریکی دباؤ کا سامنا نہ کر سکی اور اسے رہا کر دیا گیا جس کے بعد اب یقینی طور پر وہ امریکہ پہنچ چکا ہو گا ۔ ڈیوس کی اچانک رہائی بہت سوں کے لئے صدمے سے کم نہ تھی، کئی سکتے میں آگئے کہ ہو ا کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر بہت سے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں ۔اسی لئے ابھی تک یہ سارا معاملہ ایک انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کئے ہوئے ہے ۔ ایک طرف تو عباد الرحمن جو ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کیلئے آنے والی گاڑی تلے آ کر کچلا گیا تھا۔ اس سارے معاملے میں اس کے اہلخانہ کو بالکل نظرانداز کرکرنے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں تو دوسری ہلاک ہونیوالے فہیم کی بیوہ شمائلہ کے اہلخانہ کو بھی اندھیرے میں رکھنے کا گلہ سامنے آ رہا ہے۔اس کے علاوہ سب سے اہم بات جو سامنے آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ورثاء کو دیت کی رقم کے حوالے سے بعض نئے انکشافات بھی ایک اسکینڈل کی شکل میں سامنے آنے والے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذ کر ہے کہ ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونیوالے دونوجوانوں فہیم اور فیضان کے وکلاء منصف اعوان ایڈووکیٹ اور اسد منظور بٹ کیمطابق امریکہ نے مقتولین کے ورثاء کو ایک ارب پانچ کروڑ دینے کی تجویز دی تھی اورمقتول فیضان کی بیوہ نے کسی دستاویزپر دستخط نہیں کئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا گیا ،ہم سے موبائل فون بھی لے لئے گئے تھے اور ہمیں زدوکوب کرکے ایک جگہ بند کردیا گیا تھا، اسلام آباد سے نیا وکیل کرکے اس کیس کی کارروائی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے مقتولین کے ورثاء کیلئے ایک ارب پانچ کروڑ دینے کی تجویز دی تھی باقی کے 85 کروڑ کہاں گئے، رقم لینے والوں کے نام بھی سامنے لائے جائیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو ان 85 کروڑ روپوں کے حوالے سے بھی ایک بہت بڑا سکینڈل جلد سامنے آئے گا کہ یہ رقم کس نے اور کیسے وصول کی ۔
اب یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی آ گیا ہے اور سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعا کی گئی ہے کہ ریمند ڈیوس کے رہائی کے اس عمل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جائے۔ اس پر فی الحال سپریم کورٹ کا ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن اسی دوران لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج کی وہ کارروائی جس کے ذریعے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کیا گیا تھا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس درخواست کی سماعت کرنے سے اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس سے پہلے ریمنڈ ڈیوس کیس کی سماعت کر چکے ہیں اس کے بعد وہ درخواست انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک دوسرے سینئر جج صاحب کو بھیج دی ہے جہاں اس پر اب مزید کارروائی ہوگی۔
’’ فیکٹ ‘‘نے اس حوالے سے کچھ اہم تفصیلات اکٹھی کی ہیں ۔گذشتہ چند دنوں میں کب کیا کچھ ہوا ؟ ریمنڈ ڈیوس کو کیوں اور کیسے رہا کر دیا گیا ؟ اس کے علاوہ بہت سے ایسے سوالات جو سامنے آنے چاہیں تھے لیکن نہیں آ سکے ۔آےئے پڑھتے ہیں۔
ڈیل کیسے ہوئی؟
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اچانک کسی واقعے کا شاخسانہ نہیں تھی بلکہ اسلام آباد میں گذشتہ ایک ہفتے سے اس ضمن میں سنجیدہ سرگرمیاں جاری تھیں اور مقتولین کے ورثاء بھی اسلام آباد میں موجود تھے۔ امریکی حکام گذشتہ تین ہفتوں سے ریمنڈ کی رہائی کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف تھے اور ریمنڈ کے خلاف مقدمہ قتل کی سماعت کے آغاز سے قبل ہی اس کی رہائی چاہتے تھے کیونکہ مقدمہ قتل کی سماعت شروع ہونے کے بعد ریمنڈ کی رہائی میں بڑی مشکلات حائل ہو سکتی تھیں۔ بعض مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی مقتولین کے ورثاء پر سمجھوتہ نہ کرنے کیلئے شدید دباؤ تھا۔ اس لئے اسلام آباد میں مزاکرات ہو رہے تھے۔کئی مواقع پر امریکی انتظامیہ کی بعض اہم شخصیات بھی مذاکرات میں شریک ہوئیں۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں ایک سمجھوتہ طے پایا ۔ اس سمجھوتے کے تحت فہیم فیضان کے ورثاء کو 10، 10کروڑ روپے خون بہا دیا گیا۔ مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ چونکہ خودکشی کر چکی ہے اس لئے انہیں خون بہا نہیں ملے گا۔10کروڑ روپے مقتول فہیم کے خاندان میں تقسیم ہوئے جبکہ مقتول فیضان کی بیوہ کو اڑھائی کروڑ روپے اور باقی ساڑھے سات کروڑ روپے خاندان کے دیگر افراد کو دئیے گئے ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ تین روز قبل جب اسلام آباد میں مقتولین کے ورثاء سے ضمنی مذاکرات ہو رہے تھے تو مقتول فیضان کی بیوہ نے ڈھائی کروڑ روپے کے خون بہا کو ناکافی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا جس پر صدر زرداری کو کراچی صورتحال سے آگاہ کیا گیا اس طرح فیضان کی بیوہ کو مزید اڑھائی کروڑ روپے اور مجموعی طور پر پانچ کروڑ روپے خون بہا دئیے گئے۔ ڈیل کے تحت مقتولین کے اہل خانہ کے بچوں کی تعلیم ، روزگار اور دیگر ضروریات ریاستی ذمہ داری ہو گی۔ مقتول کے ورثاء بالآخر امریکا جائیں گے لیکن ورثاء کی پہلی منزل دوبئی ہو گی جہاں وہ چند روز میں پہنچنے والے ہیں فی الحال انہیں گھروں سے ’’محفوظ مقامات‘‘ پر منتقل کر دیا گیا ہے جہاں سے انہیں غیر ملکی سفر پر روانہ کر دیا جائے گا۔
دیت کی رقم کس نے کہاں سے دی؟
اہم ترین حلقوں میں یہ سوال زیربحث ہے کہ دیت کے نام پر مقتولین کو 20 کروڑ روپے کی رقم کس نے ادا کی۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس حوالے سے پاکستان میں پائے جانے والے اس تاثر کی تردید کرچکی ہیں کہ 20لاکھ ڈالرز کی رقم امریکہ نے مقتولین کے ورثاء کوادا کی ہے۔ذرائع کے مطابق دیت کے 20کروڑ روپے کے خون بہا کی ورثاء کو ادائیگی ایک سرکاری فنڈ سے کی گئی اورقومی خودداری کے تحت امریکی انتظامیہ سے کوئی رقم نہیں لی گئی۔یہاں ماہرین کی طرف سے سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر رقم حکومت پاکستان نے ادا کی ہے تو کیا اسے دیت کی رقم قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اسلامی قوانین کے تحت بھی دیت کی رقم وہی شخص ادا کرتا ہے جو قتل کا ذمہ دار ہو۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی جانب سے اختیار کئے جانے والے مؤقف کے بعد اب پاکستان کی حکومت کو جلد یہ بات بتانی پڑے گی کہ مقتولین کے ورثا کو 20 کروڑ روپے کی ادائیگی کس نے اور کہاں سے کی۔اس سوال کا جواب جب سامنے آ ئے گا توایک نیا بھونچال پیدا ہو گا۔
کس نے کیا کردار اداکیا؟
واشنگٹن پوسٹ کے صحافی ڈیوڈ اگنیٹیس نے 4 کھلاڑیوں کو اس ڈیل کا خالق قراردیا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے سینیٹر جان کیری کو ’’دیت‘‘ کا آئیڈیا دیا جس کے بعد جان کیری پاکستان آئے جہاں وہ صدر زرداری، پنجاب حکومت کے رہنماؤں اور آئی ایس آئی حکام سے ملے۔ اس کے بعد لاہور بھی زبردست سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا ۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آئی ایس آئی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شہر کے چند بااثر خاندانوں اور پرانے دوستوں کے ذریعے مقتولین فیضان اور فہیم کے ورثاء کو قائل کیا کہ ریمنڈ تو ہر صورت رہا ہو جائے گا بہتر ہے کہ وہ امریکی قاتل کو معاف کر کے رقم قبول کر لیں۔ ذرائع کے مطابق فروری کے دوسرے ہفتے میں شہباز شریف کو بعض غیرملکی دوستوں سے ہدایات موصول ہوئی تھیں جس کے بعد انہوں نے لاہور کے بااثر افراد کے ذریعے ورثاء کو دیت وصول کرنے پر رضامند کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ ان بااثر دوستوں نے (ق) لیگ اور جے یو آئی (ف) کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا اور انہیں قائل کیا کہ وہ ایسے کسی حل کی راہ میں مشکلات پیدا نہ کریں بلکہ ساتھ دیں۔ ذرائع کے مطابق غیرملکی دوستوں کی تجویز پر شہباز شریف نے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو ہدایت کی کہ وہ وزارت داخلہ کو باضابطہ طور پر ان 4 امریکیوں کے ناموں سے آگاہ نہ کریں جو ریمنڈ نے تفتیش کے پہلے روز بتائے تھے تاکہ ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہ ڈالے جا سکیں، رانا ثناء اللہ نے ایسا ہی کیا تاہم بعدازاں انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ ایسا کر کے انہوں نے غلطی کی، عوامی دباؤ کے بعد رانا ثنا ء للہ نے وزارت داخلہ کو مراسلہ بھجوایا لیکن نام نہیں بتائے۔ ذرائع کے مطابق ورثاء کی جانب سے رقم وصول کرنے پر آمادگی کے بعد شہباز شریف نے ریمنڈ کی رہائی کا تمام آپریشن رانا ثناء اللہ کے سپرد کیا اور لندن روانہ ہوگئے۔ اس تمام عرصے میں آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے شہباز شریف اور ورثاء سے رابطہ قائم رکھا اور ہر ملاقات میں موجود رہے۔
ڈیل کیا ہوئی؟
پاک امریکا تعلقات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی خاطر ہر کسی نے ریمنڈ ڈتیوس کو رہا کروانے کیلئے کام کیا۔ ڈیل کا مقصد دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش تھا۔اطلاعات ہیں کہ ڈیوس کی رہائی کے بدلے آئی ایس آئی نے سی آئی اے سے پاکستان میں خفیہ آپریشنز کے بارے یقین دہانی بھی لی ہے کہ سی آئی اے پاکستان میں بغیر اطلاع کے ایسی کوئی کارروائی نہیں کرے گی جس میں کسی کو حراست یا قتل کیا جائے۔
پاکستان جیسے ممالک جہاں ایسے نازک معاملات پر ایجنسیوں کی کافی گرفت ہوتی ہے۔ اس ڈیل کو رضا کارانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر ایڈیشنل سیشن جج کو کسی ایک وارث کی طرف سے بھی زور یا زبردستی کی بات کرنے پر صلح مسترد کردینی تھی۔ صلح پر عدالت کے باہر ورثاء یا کسی اور کا سوال اٹھانا بے معنی ہے۔ اگر فریقین صلح کرلیتے ہیں اور جج کے سامنے بیان دیتے ہیں تو جج کچھ نہیں کر سکتا۔
آخری لمحات میں کیا ہوا؟
ریمنڈ ڈیوس کیس میں ڈیل کے بعد مقتولین کے ورثاء کی جانب سے آخری لمحات میں پہلے سے موجود وکیل اسدمنظور بٹ کی جگہ آئی ایس آئی کے وکیل راجہ ارشاد کیانی میدان میں آ گئے جس سے سی آئی اے کے کٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کیلئے اس اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی کے مبینہ کردار پر مزید سوالات اٹھ رہے ہیں۔دوسری جانب راجہ ارشاد کیانی نے اسے محض مفروضہ قرار دیا کہ انھوں نے اس کیس میں آئی ایس آئی کے کہنے پر کام کیا۔ راجہ ارشاد کیانی اڈیالہ جیل سے اغوا کئے جانے والے 11 لاپتہ افراد کے کیس میں آئی ایس آئی کے وکیل تھے۔نائن الیون کے بعد راجہ کیانی کا بیٹا افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران طالبان کی جانب سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور پاکستان سے روانگی کے نتیجے میں امریکہ۔پاکستان تعلقات میں جو کشیدگی اور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان تعلقات میں جو تلخی آگئی تھی، اس میں اب کمی آجائے گی۔
مقتولین کے اہل خانہ کو خون بہا کی ادائیگی سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں یہ امریکی دعویٰ غلط تھاکہ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کو غیر قانونی طو رپر قید رکھا گیا ہے کہ کیونکہ گرفتار امریکی اہلکار اور ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ حاصل ہے ۔ تجزیہ کار رہائی کیلئے رقم کی ادائیگی کو امریکہ کی سفارتی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں ۔
اب اگر دیکھا جائے تو قوم کا جذبات کا خون کرنے کی ذمہ دار صرف وفاقی اور صوبائی حکومت ہی نہیں بلکہ وہ تمام افراد اور ادارے ہیں جو کسی نہ کسی طرح ملک اور قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کے دل و دماغ میں اہلیت نام کی کوئی چیز بھی نہیں ہے ۔ سکیورٹی اسٹبلشمنٹ بھی اس کی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ۔
ان تمام افراد اور اداروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ خدارا اب تو ملک و قوم کیلئے سوچیں ۔ تمام فیصلے ذاتی مفاد میں نہیں بلکہ ملک و قوم کے مفاد میں کریں ۔وقت بتائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ ، اسلام آباد اور لاہور کے حکمرانوں میں سے کس نے اپنے ضمیر کے ساتھ ساتھ قوم کی عزت و وقار کا سودا کیااور اس کے نتیجے میں دہرے قتل کے ملزم ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی راہ ہموار ہوئی۔
Ÿ›‚¢ž Ž“‹
¥¦ ¥‹¦ ƒŽ ¤ ‚„  ¦¥¡ ¦¥ ó ¤œ ŸŽ¤œ¤ ˜¦‹¤‹Ž  ¥ œ¦ „§ œ¦þ þƒœ’„ ¤ 10ŒžŽ œ¤ž£¥ ƒ ¤ Ÿ¡ œ¢ ‚§¤ ‚¤ˆ ’œ„¥ ¦¤¡óýý
¢ŽŽ¥Ÿ Œ Œ¥¢’ œ¥ Ÿ˜Ÿž¥ Ÿ¥¡ ‚§¤ ¦Ÿ  ¥ ¥’ ¦¤ œ¥ ó
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. zafar says:

    i think this story is very informative. but this does not show , where is relitives of “Moktouleen”?
    plz ad this.
    Zafar Ali
    London

Leave a comment