پاک فوج عوام کے اعتماد سے محروم ہو گئی
کراچی میں اب نظم وضبط کی بحالی محال ہے کیونکہ قتل وغارتگری ،ڈکیتی اور جرائم نے کراچی شہر کو ہر طرح معذور مفلوج اور بے بس بنا ڈالا ہے
زندگی گزر رہی ہے جی۔کراچی میں گردوغبار اور شدید گرمی سے نڈھال ہر فرد بس باربار یہی کہے گا ۔اسی بات کی گونج شادی ہالو ں میں بھی سنی جائے گی۔ جہاں سینکڑوں افراد کا انبوہ بریانی کھانے اکٹھا ہوتا ہے ۔میکڈو نلڈ پر آپ کے من پسند کھانوں کے آرڈر کی تعمیل کرنے والاعربی پوشاک میں ملبوس شخص بھی بس یہی بات کہے گا۔فرانسیسی سینٹ کی خوشبو میں لپٹی ہوئی کوئی بیگم صاحبہ بھی اپنی اردو کے مخصوص لہجے میں بس یہی بات کہے گی ۔باربار ایک ہی بات کہے جانے کا مطلب یہ ہے کہ کس حقیقت کی تردید کی جارہی ہے ۔حقیقت کی تردید اس طرح سے کرتے رہنے کے معاملے میں کراچی شہر کے باشندے اجتماعی طور پر بالکل متحد ہیں ۔حدیہ کہ لنگڑے ،لولے ،معذور بھی اپنی خوراک اکٹھا کرلینے کے بعد یہی بات کہتے ہیں:زندگی گذررہی ہے لیکن،جی !لیکن بقیہ پاکستان میں حالات کے معمول پر ہونے کی بات صر ف ایک وہم ہے ۔حالیہ مہینوں میں اسی کراچی شہر میں خون آشام سیاسی ٹکراؤ اور تصادم میں کئی ہزار لوگ ہلا ک ہوئے یہ خون آشام سیاسی ٹکراؤ اور تصادم ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان منتقل ہوا۔مہاجروں اور مثلاًمغربی پاکستان کے دیہاتوں پر ڈرون طیاروں کی بمباریوں سے تباہ حال پشتونوں کی کراچی میں سکونت اختیار کر لینے کے بعد سے شروع ہوا ہے۔ مہاجروں کا قبضہ اور کنٹرول اراضیات پر ہے اور پشتونوں کا قبضہ اور کنٹرول ٹرانسپورٹTruck اور حمل ونقل کے کاروبار پر ہے ۔کہیں جانے اور آنے کے لیے بس کا سفر ضروری ہے ۔ادھر کراچی ایک طویل عرصے سے مسلسل خو ن آشام ٹکراؤ اور تصادم کی آماجگا بنا ہواہے۔آتشزدگی کا نشانہ بنائی ہوئی دکانات،املاک اور جلتی ہوئی بسوں اور ٹرکس سے اٹھتا ہوا دھو اں یہ بتاتا ہے کہ پرائے یا نئے تارکین میں سے کس نے آتشزدگی کی کارستانی کی ہے ۔غروب آفتاب کے ساتھ ہی معمول کی عقیدت کے ساتھ جنازوں کے جلوس نکلتے ہیں۔ اس سے پہلے نماز جنادہ کی ادائیگی بھی بڑی عقیدت کے ساتھ ہوتی ہے۔خون آشام ،خون ریز ہنگاموں سے سہما ہوا،ٹھوٹا پھوٹا کراچی شہر اتنا کچھ بے حس بن گیا ہے کہ کوئی ٹوٹ پڑنے والی قیامت خیز تباہی بھی اس کی بے حسی کو زائل نہیں کر سکتی۔لیکن 20مئی جمعہ کی شام جھٹ پٹے کے وقت جو واقعہ ہوا ۔اس نے ثابت کر دیا کہ کراچی شہر کی بے حسی زائل کی جاسکتی ہے۔اس شام کو ہفتہ بھر کی 46ڈگری سنٹی گریڈ کی حدت اور تپش سے کچھ چھٹکارا ملا تھا کیونکہ یہ دن 30سال کی تاریخ میں شدید ترین گرمی کا دن تھاکہ چند لوگوں کا ایک گروپ چند دیواریں پھلانگ کر اور ایک سوکھے دریا کے پاٹ سے گزر کر کروڑوں ڈالر مالیت کے طیاروں کو تباہ کر ڈالنے کی مہم میں کامیاب ہو گیا۔پاک بحریہ کے اڈے مہران بیس پر رات بھر دہشت گردگروپ، بحریہ کے کمانڈو اور سکیورٹی فورسز کے مابین گھمسان کی لڑائی ہوتی رہی۔بحری اڈے کے اطراف تمام رہائشی علاقوں کے مکانات گولیوں کی سنسناہٹ اور دھماکوں کی گھن گرج سے دہلتے رہے ۔اس طرح کراچی شہر کا خون آشام تصادم نئے علاقوں تک پھیل گیا ۔ان نئے علاقوں میں رہائش پذیر لوگ اپنے مکانوں کی عمارتوں کی گرم چھتوں پر اپنے بستروں کے ساتھ منتقل ہو گئے ۔ان میں زیادہ تر رہائشی علاقے کوئی ایک ہفتے زائد سے بجلی سے محروم رہے کراچی شہرکو بجلی سپلائی کرنے والا ادارہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ملازمین کی ہڑتال کے سبب پہلے ہی بجلی سے محروم ہو گیا تھا۔دوسری صبح بس سوالات پوچھے جانے لگے۔کراچی کے ساحل پر پاک بحریہ کے اڈوں میں شارع فیصل سے جڑابحریہ کا مہران اےئر بیس ایک معروف نشان بنا ہو اتھا۔جناح انٹرنیشنل اےئر پورٹ کو جانے اور وہاں سے واپس ہونے کے لیے شارع فیصل سے ہی گذرنا پڑتا ہے ۔ایسا باور کرلیا گیا تھا کہ مہران بحری بیس پر سکیورٹی بندوبست نہائت معقول اور سخت ہے ۔مہران بیس کے داخلی راستوں پر بنائی گئی کمانوں پر لکھی گئی تحریر اور کمانوں کے دونوں ستونوں کے ساتھ پہرہ دیتے محافظ د ستے یہی تاثر دیتے تھے۔
کراچی شہر کے دیگر بحری اڈوں کے و سیع الرقبہ سبزہ زاروں کو ولیمہ اور افطار تقاریب کے لیے کرائے پر دینا ایک معمول رہا ہے ۔لیکن مہران بحری اڈہ کبھی عام لوگوں کے لئے کھولا نہیں گیا۔کراچی کی ایلیٹ کلاس کے لیے بھی مہران بحرے اڈے تک رسائی ناممکن تھی۔یہ طبقہ اشرافیہ جشن تقاریب منانے کے لیے ہمیشہ سستے سے کرائے کے مقامات کا متلاشتی بنا رہتا ہے ۔لیکن 23مئی کی صبح اس نہایت پراسرار راز کا پردہ فا ش ہو گیا کہ دیواروں سے محصور مہران بیس کتنا کچھ محفوظ ہے ۔ایک دہشت گردگروپ نے اس پر اسرار راز کا پردہ چاک کر ڈالا اور کراچی کے شہریوں پر یہ انکشاف ہوگیا کہ کراچی شہر میں کچھ بھی محفوظ نہیں۔ویسے بھی کراچی کے شہری کبھی بھی یہ باور نہیں کئے ہوئے تھے کہ وہ کسی نہ کسی حد تک محفوظ ہیں۔حبس زدہ راتوں میں پسینوں سے تر بتر کراچی کے شہری انجانے خوف سے اب وحشت زدہ ہیں ۔کراچی کے شہریوں کو اب یہ معلوم ہو گیا ہے کہ صرف وہی بے بس نہیں ہیں۔
فوج اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ اب وہ تصادم گروہوں کے مابین کھڑے ہو کر بیچ بچاؤ نہیں کرسکتی ۔حد یہ کہ تحریک طالبان پاکستان نے فوج کو بالکل بے بس بنا ڈالا ہے ۔پاکستان کے لیے یہ ایک منحوس صورتحال ہے ۔ مہران بیس پر کئے گئے حملے نے پاکستانی فوج کو بہت نقصان نچایا گیا ۔اس کے ساتھ ہی یہ نیا انکشاف بھی ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب پاکستان کے شمال مغربی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہے گی اور اب دہشت گردی نسلی طبقوں کے مابین جنگ میں بدل جائے گی۔مہران بیس پر حملے کے چند دنوں بعد ’متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر الطاف حسین نے نسلی شناخت کا ایک بوجھ ہلکا کرتے ہوئے یہ کہا کہ مہران بحری اڈے پر حملہ قابل مذمت ہے ۔اس لیے پاکستان کو خود اپنے طور پر ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنی چاہئے ۔الطاب حسین نے پاکستانی فوج کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج سرپھرے عناصر کا خاتمہ کرنے کے لیے جو جدوجہد کر رہی ہے وہ قابل تحسین وآفرین ہے۔کراچی کے شہریوں کے لیے الطاف حسین کا صاف پیام بس یہ تھا کہ فوج کا ساتھ دیا جائے‘ بالخصوص اس وقت جبکہ پشتون جتھے فوج پر حملے کر رہے ہوں ۔یہ ایک عجیب اور گنجلک سی منطق ہے ۔کیونکہ دوسری جانب کراچی شہر میں پشتون کے طبقے اگر اسی منطق کے مطابق تحریک طالبان کے ساتھ بن جائیں تو پھر صورتحال کیا بن جائے گی ؟
کراچی میں زندگی ہمیشہ خطرناک طور پر معلق بنی رہی ہے ۔ڈاکو ٹولیاں باقاعدگی سے گھروں میں داخل ہو کر ریوالوروں ،پستولوں کی نوک بتا کر مکینوں کو لوٹ لیتی ہیں۔اغوا کاری کے ذریعہ بڑی بڑی رقومات کی وصولیاں ایک بہت بڑا کاروبار بن گئی ہیں ۔جہادی کھلے عام دھڑلے سے سڑکوں پر نوجوان کی بھرتی کرتے رہتے ہیں اور پولیس یہ سب کچھ خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے ۔وہ جرائم کے انسداد کے لیے کچھ نہیں کرتی ۔کراچی شہر کو کسی بات پر کچھ یقین کی ضرورت ہے جیسے کہ نظم وضبط قائم ہو سکنے کے کسی امکان پر چاہے یہ یقین کسی لنگڑے کی بیساکھی کے جیسا ہی کیوں نہ ہو۔
روز مرہ کسی نہ کسی ہولناک حقیقت کا سامنا کرسکنے کے لیے تو اس طرح کا یقین ضروری ہے کہ کبھی نظم وضبط قائم ہو جائے گا۔لیکن مہران بیس پر کیے گئے حملے نے اس طرح کے یقین کے امکان کو ہی خاتمہ کر ڈالا ہے ۔اب یہ صرف ایک خواب بن گیا ہے کہ کبھی نظم وضبط قائم ہو جائے گا۔چاہے یہ خواب مسلط ہی کیوں نہ ہو جائے۔ لیکن اب نظم وضبط کی بحالی محال ہے ۔کیونکہ قتل وغارتگری ،ڈکیتی اور جرائم نے کراچی شہر کو ہر طرح معذور مفلوج اور بے بس بنا ڈالا ہے ۔
رافیہ ذکریا ،ایک پی ایچ ڈی اسکالر اور ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ کی جنرل سکر یٹری ہیں اور کبھی کبھار لکھتی بھی ہیں ۔
اچھا مضمون ہے ۔ لیکن فوج کے ارباب اختیار کو اب اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ فوج کے امیج کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ میں یہ سٹوری بہت سے فوجی افسران کو بھی بھیج رہا ہوں ۔شکریہ
محمد عامر ، اسلام آباد