Published On: Wed, Jun 22nd, 2011

آئل ٹینکر کے ذریعے دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ

Share This
Tags

راولپنڈی میں حملوں کا خطرہ ، دہشت گرد پی اے ایف بیس چکلالہ اور بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو بھی ہدف بنا سکتے ہیں، خفیہ کیمروں سے پیدل چلنے والے افراد اور ٹریفک کی نگرانی کی جا رہی ہے ، انٹیلی جنس رپورٹوں کے بعدپولیس نے بھی چکلالہ ائیر بیس کے بعض کمزور مقامات کی نشاندہی کر دی

عبدالقدوس
راولپنڈی شہر عسکری نوعیت کے اہم دفاتر اور تنصیبات کی وجہ سے ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔اس شہر میں گزشتہ چند برسوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور سرجن جنرل مشتاق بیگ جیسی اہم شخصیات بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنی ہیں۔2 مئی کو واقعہ ایبٹ آباد کے بعد دہشت گردوں نے جب ایک بار پھر اپنی کاروائیوں کا دائر وسیع کیا ہے تو وفاقی دارالحکومت کا جڑواں شہر راولپنڈی ایک بار پھر دہشت گردی کے خطرے کی زد میں ہے۔ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس ا داروں نے دو ہفتے قبل بھی راولپنڈی میں دہشت گردی کے خطرے کی اطلاع دی تھی جس پر سکیورٹی اداروں نے ریڈ الرٹ کر دیا تھا اور خصوصاً رات کے وقت اہم دفاعی نوعیت کے دفاتر اور تنصیاب کے گر دسکیورٹی بڑھادی گئی تھی۔سی سی پی او را ولپنڈی نے تصدیق کی ہے کہ حساس اداروں کی جانب سے بعض ایسی اطلاعات فراہم کی گئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ شر پسند عناصر تعمیرات کے لئے استعمال ہونے والی مشینری یا آئل ٹینکر کے ذریعے اہم دفاعی نوعیت کی تنصیبات یا ذخائر کو نشانہ بناسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی کینٹ ایریا کے حساس علاقے میں سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے ۔راولپندی کا مال روڈ جو اہم فوجی دفاتر اور حساس مقامات کے سامنے سے گزرتا ہے ،وہاں خفیہ کیمروں سے پیدل چلنے والے افراد اور ٹریفک کی جو نگرانی کی جارہی تھی اسے مزید فعال کر دیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دہشت گرد پی اے ایف بیس چکلالہ اور اس سے منسلک بینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ(اسلام آباد ایئر پورٹ) کو بھی ہدف بنا سکتے ہیں ۔ان دونوں حساس مقامات کے گرد چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ کر نے کے علاوہ سکیورٹی اداروں کا گشت بھی بڑھادیاگیا ہے۔گزشتہ چند برسوں میں راولپنڈی میں نصف درجن سے زائد بڑے دھماکے ہوئے جن میں سینکڑوں افراد شہید ہوئے۔راولپنڈی میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام وارداتوں کا مرکز کیٹ ایریا رہا۔صرف ایک خودکش حملہ مری روڈ پر راولپنڈی سٹی کے علاقے میں ہوا اور اس کا ہدف بھی سکیورٹی ادارے کی بس تھی جس میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔راولپنڈی کینٹ کے علاقے میں جی ایچ کیو ،اس سے متعلقہ پاک فوج کے دیگر اہم دفاتر،ڈی ایچ کیو اور سی ایم ایچ شامل ہیں۔اسلام آباد ایئر پورٹ،چکلالہ ایئر بیس اور راولپنڈی اور راولپنڈی ضلعی کچہری کا علاقہ بھی راولپنڈی کینٹ کی حدود میں واقع ہے۔پشاور سے اس کی دوسری سمت لاہور سے آنے والی جی ٹی روڈ بھی کینٹ کے علاقے سے ہی راولپنڈی میں داخل ہوتی ہے ۔یہاں ایئرپورٹ ہونے کی وجہ سے بھی گاڑیوں کی آمدورفت کافی زیادہ ہے، ان انتہائی اہم اور کھلے راستوں کے علاوہ ضلع کے دیہی علاقوں سے بھی درجنوں پختہ سڑکیں راولپنڈی کینٹ میں آکر ختم ہوئی ہیں اور روزانہ ہزاروں مسافر ان راستوں سے حساس اور دفاعی نوعیت کے علاقے میں آتے ہیں یا گزرتے ہیں ۔
کینٹ کے علاقے میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے پنجاب پولیس کے علاوہ ملٹر ی پولیس،ایلیٹ فورس کے کمانڈوز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو مستعد کیا گیا ہے ۔گذشتہ ہفتے اسلام آباد ایئر پورٹ کی پارکنگ سے ایک مشکوک بیگ ملا جسے سے کھبلی مچ گئی ار سکیورٹی اداروں نے اس مشکوک بیگ کو تحویل میں لے کر اس علاقے کو محفوظ بنایا ۔قبل ازیں مشکوک بیگ نظر آنے پر ائیرپورٹ کی پارکنگ کو فوری طور پر خالی کرالیا گیا اور سامنے سے گزرنے والے مین روڈ پر ہر طرح کی ٹریفک روک دی گئی ،تاہم بیگ میں سے کوئی خطرناک چیز برآمد نہیں ہوئی ۔
ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ کے بعد پولیس نے چکلالہ ائیر بیس کے ارد گردمکمل دیکھ بھال کے بعد بعض کمزور مقامات کی نشاندہی کی ہے ۔جس کے بعد ان کمزور مقامات پر خصوصی توجہ دے کر سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنایا گیا ہے۔سکیورٹی اہلکاروں کے گشت کے علاوہ دو مستقل چوکیوں کا اضافہ کیا گیا ہے ۔جبکہ اطراف میں نصف سرچ لائٹس اور حفاظتی نقطہ نظرسے لگائے گئے کیمروں پر بھی ایک بار پھر خصوصی توجہ دے کر انہیں مزید فعال کر دیا گیا ہے۔راولپنڈی پولیس کے اعلی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر کو ہر طرح کی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے اور جرائم پیشہ افراد کا قطع قمع کرنے کے لئے وسائل کا پوری طرح سے استعمال کرتے ہوئے تمام ممکنہ اقدامات کئے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق باقی شہروں کی نسبت راولپنڈی کی اہمیت اس حوالے سے دو چند ہے کہ اہم قومی دفاتر اور مراکز اسی شہر میں واقع ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کو ماضی میں یہاں ٹارگٹ تک پہنچنے کے لئے مشکل پیش آئی تو انہوں نے دوران نماز جمہ ایک مسجد پر حملہ آور ہو کر اپنی درندگی اور بربریت کا ثبوت دیا ۔راولپنڈی کے لیے 2009ء کا سال بہت بھاری رہا ۔جب جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا۔اس کے علاوہ قومی ادارے کی رہائشی بستی میں ایک مسجد پر حملہ کر کے 40کے قریب نمازیوں کو شہید کر د یا گیا۔راولپنڈی کینٹ کے بعض مضافاتی علاقے جیسے ٹنچ بھاٹہ اور لالکڑتی میں کم آمدنی والے اور مزدور پیشہ افراد بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ان علاقوں میں رہنے والے افراد کی شناخت سکیورٹی اداروں کے لیے ہمیشہ مسئلہ رہی ہے ۔گنجان آبادی کے ان علاقوں میں رہنے والے مزدور پیشہ افراد پر مستقل نظر رکھنا بھی پولیس کے لئے خاصا دشوار کام ہے ۔لیکن اس کے باوجود پولیس ذرائع کا دعوی ہے کہ ان علاقوں میں اب اس کا نیٹ ورک خاصا موثر ہے اور تخریب کاروں اور جرائم پیشہ افراد کے لئے اب ان علاقوں میں رہنا اس طرح ممکن نہیں رہا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔راولپنڈی شہر سے کینٹ کی طرف جانے والے راستوں پر بھی سکیورٹی کے انتظامات کو مزیدبہتر بنانے کے لیے اقدامات کئے گئے ہیں ۔ان سکیورٹی ناکوں پر افرادی قوت میں اضافہ کیا گیا ہے۔جبکہ حساس مقامات پر بھی سکیورٹی کے اقدامات سخت کردئیے گئے ہیں۔پنجاب پولیس کے علاوہ دیگر قومی ادارے بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں اور تمام وطن دشمن عناصر پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
³£ž …¤ œŽ œ¥ Ž¤˜¥ ‹š˜¤ „ ”¤‚„ œ¢  “ ¦ ‚  ¥ œ Ÿ ”¢‚¦
Ž¢žƒ Œ¤ Ÿ¤¡ ‰Ÿž¢¡ œ Š–Ž¦ í ‹¦“„ Ž‹ ƒ¤ ¥ ¤š ‚¤’ ˆœžž¦ ¢Ž ‚¤ —¤Ž ‚§…¢  …Ž ¤“ ž ¤£Ž ƒ¢Ž… œ¢ ‚§¤ ¦‹š ‚  ’œ„¥ ¦¤¡í Šš¤¦ œ¤ŸŽ¢¡ ’¥ ƒ¤‹ž ˆž ¥ ¢ž¥ šŽ‹ ¢Ž …Ž¤šœ œ¤   Ž ¤ œ¤ ‡ Ž¦¤ ¦¥ í  …¥ž¤ ‡ ’ Žƒ¢Ž…¢¡ œ¥ ‚˜‹ƒ¢ž¤’  ¥ ‚§¤ ˆœžž¦ £¤Ž ‚¤’ œ¥ ‚˜• œŸ¢Ž Ÿ›Ÿ„ œ¤  “ ‹¦¤ œŽ ‹¤
˜‚‹ž›‹¢’
Ž¢žƒ Œ¤ “¦Ž ˜’œŽ¤  ¢˜¤„ œ¥ ¦Ÿ ‹š„Ž ¢Ž „ ”¤‚„ œ¤ ¢‡¦ ’¥ ¦Ÿ¤“¦ ‹¦“„ Ž‹¢¡ œ¥  “ ¥ ƒŽ Ž¦ ¦¥ó’ “¦Ž Ÿ¤¡ “„¦ ˆ ‹ ‚Ž’¢¡ Ÿ¤¡ Ÿ‰„ŽŸ¦ ‚¥  —¤Ž ‚§…¢ ¢Ž ’Ž‡  ‡ Žž Ÿ“„› ‚¤ ‡¤’¤ ¦Ÿ “Š”¤„ ‚§¤ ‹¦“„ Ž‹¢¡ œ  “ ¦ ‚ ¤ ¦¤¡ó2 Ÿ£¤ œ¢ ¢›˜¦ ¤‚… ³‚‹ œ¥ ‚˜‹ ‹¦“„ Ž‹¢¡  ¥ ‡‚ ¤œ ‚Ž ƒ§Ž ƒ ¤ œŽ¢£¤¢¡ œ  ‹£Ž ¢’¤˜ œ¤ ¦¥ „¢ ¢š›¤ ‹Žž‰œ¢Ÿ„ œ ‡¢¡ “¦Ž Ž¢žƒ Œ¤ ¤œ ‚Ž ƒ§Ž ‹¦“„ Ž‹¤ œ¥ Š–Ž¥ œ¤ ‹ Ÿ¤¡ ¦¥óŽ£˜ œ¥ Ÿ–‚›  …¤ž¤ ‡ ’  ‹Ž¢¡  ¥ ‹¢ ¦š„¥ ›‚ž ‚§¤ Ž¢žƒ Œ¤ Ÿ¤¡ ‹¦“„ Ž‹¤ œ¥ Š–Ž¥ œ¤ –ž˜ ‹¤ „§¤ ‡’ ƒŽ ’œ¤¢Ž…¤ ‹Ž¢¡  ¥ Ž¤Œ žŽ… œŽ ‹¤ „§ ¢Ž Š”¢”Ç Ž„ œ¥ ¢›„ ¦Ÿ ‹š˜¤  ¢˜¤„ œ¥ ‹š„Ž ¢Ž „ ”¤‚ œ¥ Ž ‹’œ¤¢Ž…¤ ‚§‹¤ £¤ „§¤ó’¤ ’¤ ƒ¤ ¢ Ž ¢žƒ Œ¤  ¥ „”‹¤› œ¤ ¦¥ œ¦ ‰’’ ‹Ž¢¡ œ¤ ‡ ‚ ’¥ ‚˜• ¤’¤ –ž˜„ šŽ¦Ÿ œ¤ £¤ ¦¤¡ ‡’ Ÿ¤¡ œ¦ ¤ ¦¥ œ¦ “Ž ƒ’ ‹ ˜ ”Ž „˜Ÿ¤Ž„ œ¥ ž£¥ ’„˜Ÿž ¦¢ ¥ ¢ž¤ Ÿ“¤ Ž¤ ¤ ³£ž …¤ œŽ œ¥ Ž¤˜¥ ¦Ÿ ‹š˜¤  ¢˜¤„ œ¤ „ ”¤‚„ ¤ Š£Ž œ¢  “ ¦ ‚ ’œ„¥ ¦¤¡ó¤¦¤ ¢‡¦ ¦¥ œ¦ Ž¢žƒ Œ¤ œ¤ … ¤Ž¤ œ¥ ‰’’ ˜ž›¥ Ÿ¤¡ ’œ¤¢Ž…¤  „¦£¤ ’Š„ œŽ ‹¤ £¤ ¦¥ 󎁢žƒ ‹¤ œ Ÿž Ž¢Œ ‡¢ ¦Ÿ š¢‡¤ ‹š„Ž ¢Ž ‰’’ Ÿ›Ÿ„ œ¥ ’Ÿ ¥ ’¥ Ž„ ¦¥ í¢¦¡ Šš¤¦ œ¤ŸŽ¢¡ ’¥ ƒ¤‹ž ˆž ¥ ¢ž¥ šŽ‹ ¢Ž …Ž¤šœ œ¤ ‡¢  Ž ¤ œ¤ ‡Ž¦¤ „§¤ ’¥ Ÿ¤‹ š˜ž œŽ ‹¤ ¤ ¦¥óŽ£˜ œ¥ Ÿ–‚› Š‹“¦ —¦Ž œ¤ ¤ ¦¥ œ¦ ‹¦“„ Ž‹ ƒ¤ ¥ ¤š ‚¤’ ˆœžž¦ ¢Ž ’ ’¥ Ÿ ’žœ ‚¤ —¤Ž ‚§…¢  …Ž ¤“ ž ¤£Ž ƒ¢Ž…⁒žŸ ³‚‹ ¤£Ž ƒ¢Ž…á œ¢ ‚§¤ ¦‹š ‚  ’œ„¥ ¦¤¡ ó  ‹¢ ¢¡ ‰’’ Ÿ›Ÿ„ œ¥ Ž‹ ˆ¤œ ƒ¢’…¢¡ œ¤ „˜‹‹ Ÿ¤¡ •š¦ œŽ  ¥ œ¥ ˜ž¢¦ ’œ¤¢Ž…¤ ‹Ž¢¡ œ “„ ‚§¤ ‚§‹¤¤ ¦¥ó“„¦ ˆ ‹ ‚Ž’¢¡ Ÿ¤¡ Ž¢žƒ Œ¤ Ÿ¤¡ ”š ‹Ž‡  ’¥ £‹ ‚¥ ‹§Ÿœ¥ ¦¢£¥ ‡  Ÿ¤¡ ’¤ œ¢¡ šŽ‹ “¦¤‹ ¦¢£¥óŽ¢žƒ Œ¤ Ÿ¤¡ ¦¢ ¥ ¢ž¤ ‹¦“„ Ž‹¤ œ¤ „ŸŸ ¢Ž‹„¢¡ œ ŸŽœ œ¤… ¤Ž¤ Ž¦ó”Žš ¤œ Š¢‹œ“ ‰Ÿž¦ ŸŽ¤ Ž¢Œ ƒŽ Ž¢žƒ Œ¤ ’…¤ œ¥ ˜ž›¥ Ÿ¤¡ ¦¢ ¢Ž ’ œ ¦‹š ‚§¤ ’œ¤¢Ž…¤ ‹Ž¥ œ¤ ‚’ „§¤ ‡’ Ÿ¤¡ ‹Ž‡ ¢¡ šŽ‹ ŠŸ¤ ¦¢£¥óŽ¢žƒ Œ¤ œ¤ … œ¥ ˜ž›¥ Ÿ¤¡ ‡¤ ¤ˆ œ¤¢ 큒 ’¥ Ÿ„˜ž›¦ ƒœ š¢‡ œ¥ ‹¤Ž ¦Ÿ ‹š„ŽíŒ¤ ¤ˆ œ¤¢ ¢Ž ’¤ ¤Ÿ ¤ˆ “Ÿž ¦¤¡ó’žŸ ³‚‹ ¤£Ž ƒ¢Ž…툜žž¦ ¤£Ž ‚¤’ ¢Ž Ž¢žƒ Œ¤ ¢Ž Ž¢žƒ Œ¤ •ž˜¤ œˆ¦Ž¤ œ ˜ž›¦ ‚§¤ Ž¢žƒ Œ¤ œ¤ … œ¤ ‰‹¢‹ Ÿ¤¡ ¢›˜ ¦¥óƒ“¢Ž ’¥ ’ œ¤ ‹¢’Ž¤ ’Ÿ„ ž¦¢Ž ’¥ ³ ¥ ¢ž¤ ‡¤ …¤ Ž¢Œ ‚§¤ œ¤ … œ¥ ˜ž›¥ ’¥ ¦¤ Ž¢žƒ Œ¤ Ÿ¤¡ ‹Šž ¦¢„¤ ¦¥ 󤦁¡ ¤£Žƒ¢Ž… ¦¢ ¥ œ¤ ¢‡¦ ’¥ ‚§¤ ¤¢¡ œ¤ ³Ÿ‹¢Žš„ œš¤ ¤‹¦ ¦¥í    „¦£¤ ¦Ÿ ¢Ž œ§ž¥ Ž’„¢¡ œ¥ ˜ž¢¦ •ž˜ œ¥ ‹¤¦¤ ˜ž›¢¡ ’¥ ‚§¤ ‹Ž‡ ¢¡ ƒŠ„¦ ’œ¤¡ Ž¢žƒ Œ¤ œ¤ … Ÿ¤¡ ³œŽ Š„Ÿ ¦¢£¤ ¦¤¡ ¢Ž Ž¢ ¦ ¦Ž¢¡ Ÿ’šŽ   Ž’„¢¡ ’¥ ‰’’ ¢Ž ‹š˜¤  ¢˜¤„ œ¥ ˜ž›¥ Ÿ¤¡ ³„¥ ¦¤¡ ¤ Ž„¥ ¦¤¡ ó
œ¤ … œ¥ ˜ž›¥ Ÿ¤¡ ‹¦“„ Ž‹¤ œ¤ Ž¢œ „§Ÿ œ¥ ž£¥ ƒ ‡‚ ƒ¢ž¤’ œ¥ ˜ž¢¦ Ÿž…Ž ¤ ƒ¢ž¤’큤ž¤… š¢Ž’ œ¥ œŸ Œ¢ ¢Ž  …¤ž¤ ‡ ’ ¦žœŽ¢¡ œ¢ Ÿ’„˜‹ œ¤ ¤ ¦¥ 󝍓„¦ ¦š„¥ ’žŸ ³‚‹ ¤£Ž ƒ¢Ž… œ¤ ƒŽœ  ’¥ ¤œ Ÿ“œ¢œ ‚¤ Ÿž ‡’¥ ’¥ œ§‚ž¤ Ÿˆ £¤ Ž ’œ¤¢Ž…¤ ‹Ž¢¡ ¥ ’ Ÿ“œ¢œ ‚¤ œ¢ „‰¢¤ž Ÿ¤¡ ž¥ œŽ ’ ˜ž›¥ œ¢ Ÿ‰š¢— ‚ ¤ ó›‚ž ¤¡ Ÿ“œ¢œ ‚¤  —Ž ³ ¥ ƒŽ £¤Žƒ¢Ž… œ¤ ƒŽœ  œ¢ š¢Ž¤ –¢Ž ƒŽ Šž¤ œŽž¤ ¤  ¢Ž ’Ÿ ¥ ’¥ Ž ¥ ¢ž¥ Ÿ¤  Ž¢Œ ƒŽ ¦Ž –Ž‰ œ¤ …Ž¤šœ Ž¢œ ‹¤ £¤ 턁¦Ÿ ‚¤ Ÿ¤¡ ’¥ œ¢£¤ Š–Ž œ ˆ¤ ‚Ž³Ÿ‹  ¦¤¡ ¦¢£¤ ó
Ž£˜ œ¥ Ÿ–‚›  …¤ž¤ ‡ ’ ‹Ž¢¡ œ¤ Žƒ¢Ž… œ¥ ‚˜‹ ƒ¢ž¤’  ¥ ˆœžž¦ £¤Ž ‚¤’ œ¥ Ž‹ Ž‹ŸœŸž ‹¤œ§ ‚§ž œ¥ ‚˜‹ ‚˜• œŸ¢Ž Ÿ›Ÿ„ œ¤  “ ‹¦¤ œ¤ ¦¥ ó‡’ œ¥ ‚˜‹   œŸ¢Ž Ÿ›Ÿ„ ƒŽ Š”¢”¤ „¢‡¦ ‹¥ œŽ ’œ¤¢Ž…¤  „—Ÿ„ œ¢ ‚¦„Ž ‚ ¤ ¤ ¦¥ó’œ¤¢Ž…¤ ¦žœŽ¢¡ œ¥ “„ œ¥ ˜ž¢¦ ‹¢ Ÿ’„›ž ˆ¢œ¤¢¡ œ •š¦ œ¤ ¤ ¦¥ 󇂜¦ –Žš Ÿ¤¡  ”š ’Žˆ ž£…’ ¢Ž ‰š—„¤  ›–¦  —Ž’¥ ž£¥ £¥ œ¤ŸŽ¢¡ ƒŽ ‚§¤ ¤œ ‚Ž ƒ§Ž Š”¢”¤ „¢‡¦ ‹¥ œŽ  ¦¤¡ Ÿ¤‹ š˜ž œŽ ‹¤ ¤ ¦¥óŽ¢žƒ Œ¤ ƒ¢ž¤’ œ¥ ˜ž¤ Ž£˜ œ œ¦  ¦¥ œ¦ “¦Ž œ¢ ¦Ž –Ž‰ œ¤ ‹¦“„ Ž‹¤ ’¥ Ÿ‰š¢— Žœ§ ¥ ¢Ž ‡Ž£Ÿ ƒ¤“¦ šŽ‹ œ ›–˜ ›Ÿ˜ œŽ ¥ œ¥ ž£¥ ¢’£ž œ ƒ¢Ž¤ –Ž‰ ’¥ ’„˜Ÿž œŽ„¥ ¦¢£¥ „ŸŸ ŸŸœ ¦ ›‹Ÿ„ œ£¥ £¥ ¦¤¡óŽ£˜ œ¥ Ÿ–‚› ‚›¤ “¦Ž¢¡ œ¤  ’‚„ Ž¢žƒ Œ¤ œ¤ ¦Ÿ¤„ ’ ‰¢ž¥ ’¥ ‹¢ ˆ ‹ ¦¥ œ¦ ¦Ÿ ›¢Ÿ¤ ‹š„Ž ¢Ž ŸŽœ ’¤ “¦Ž Ÿ¤¡ ¢›˜ ¦¤¡ó¤¦¤ ¢‡¦ ¦¥ œ¦ ‹¦“„ Ž‹¢¡ œ¢ Ÿ•¤ Ÿ¤¡ ¤¦¡ …Ž… „œ ƒ¦ ˆ ¥ œ¥ ž£¥ Ÿ“œž ƒ¤“ ³£¤ „¢  ¦¢¡ ¥ ‹¢Ž   Ÿ ‡Ÿ¦ ¤œ Ÿ’‡‹ ƒŽ ‰Ÿž¦ ³¢Ž ¦¢ œŽ ƒ ¤ ‹Ž ‹¤ ¢Ž ‚Ž‚Ž¤„ œ †‚¢„ ‹¤ 󎁢žƒ Œ¤ œ¥ ž¤¥ 2009£ œ ’ž ‚¦„ ‚§Ž¤ Ž¦ ó‡‚ ‡¤ ¤ˆ œ¤¢ ƒŽ ‰Ÿž¦ œ¤ ¤ó’ œ¥ ˜ž¢¦ ›¢Ÿ¤ ‹Ž¥ œ¤ Ž¦£“¤ ‚’„¤ Ÿ¤¡ ¤œ Ÿ’‡‹ ƒŽ ‰Ÿž¦ œŽ œ¥ 40œ¥ ›Ž¤‚  Ÿ¤¢¡ œ¢ “¦¤‹ œŽ ‹ ¤ ¤óŽ¢žƒ Œ¤ œ¤ … œ¥ ‚˜• Ÿ•š„¤ ˜ž›¥ ‡¤’¥ … ˆ ‚§…¦ ¢Ž žžœ„¤ Ÿ¤¡œŸ ³Ÿ‹ ¤ ¢ž¥ ¢Ž Ÿ‹¢Ž ƒ¤“¦ šŽ‹ ‚¤ „˜‹‹ Ÿ¤¡ Ž¦„¥ ¦¤¡ó  ˜ž›¢¡ Ÿ¤¡ Ž¦ ¥ ¢ž¥ šŽ‹ œ¤ “ Š„ ’œ¤¢Ž…¤ ‹Ž¢¡ œ¥ ž¤¥ ¦Ÿ¤“¦ Ÿ’£ž¦ Ž¦¤ ¦¥ 󝠇  ³‚‹¤ œ¥   ˜ž›¢¡ Ÿ¤¡ Ž¦ ¥ ¢ž¥ Ÿ‹¢Ž ƒ¤“¦ šŽ‹ ƒŽ Ÿ’„›ž  —Ž Žœ§  ‚§¤ ƒ¢ž¤’ œ¥ ž£¥ Š” ‹“¢Ž œŸ ¦¥ 󞤜  ’ œ¥ ‚¢‡¢‹ ƒ¢ž¤’ Ž£˜ œ ‹˜¢¤ ¦¥ œ¦   ˜ž›¢¡ Ÿ¤¡ ‚ ’ œ  ¤… ¢Žœ Š” Ÿ¢†Ž ¦¥ ¢Ž „ŠŽ¤‚ œŽ¢¡ ¢Ž ‡Ž£Ÿ ƒ¤“¦ šŽ‹ œ¥ ž£¥ ‚   ˜ž›¢¡ Ÿ¤¡ Ž¦  ’ –Ž‰ ŸŸœ   ¦¤¡ Ž¦ ‡¤’ œ¦ Ÿ•¤ Ÿ¤¡ ¦¢„ Ž¦ ¦¥óŽ¢žƒ Œ¤ “¦Ž ’¥ œ¤ … œ¤ –Žš ‡ ¥ ¢ž¥ Ž’„¢¡ ƒŽ ‚§¤ ’œ¤¢Ž…¤ œ¥  „—Ÿ„ œ¢ Ÿ¤‹‚¦„Ž ‚  ¥ œ¥ ž¤¥ ›‹Ÿ„ œ£¥ £¥ ¦¤¡ ó  ’œ¤¢Ž…¤  œ¢¡ ƒŽ šŽ‹¤ ›¢„ Ÿ¤¡ •š¦ œ¤ ¤ ¦¥ó‡‚œ¦ ‰’’ Ÿ›Ÿ„ ƒŽ ‚§¤ ’œ¤¢Ž…¤ œ¥ ›‹Ÿ„ ’Š„ œŽ‹£¤¥ £¥ ¦¤¡óƒ ‡‚ ƒ¢ž¤’ œ¥ ˜ž¢¦ ‹¤Ž ›¢Ÿ¤ ‹Ž¥ ‚§¤ ƒ ¥ šŽ£• ’¥ ™šž  ¦¤¡ ¢Ž „ŸŸ ¢–  ‹“Ÿ  ˜ ”Ž ƒŽ  —Ž Žœ§¥ ¦¢£¥ ¦¤¡ó

Leave a comment