کراچی میں قبضہ کی جنگ پھرتیزہوگئی
ٹارگٹ کلنگ پر پروزیراعظم صاحب نے فرمایاکہ یہ تو صوبائی معاملہ ہے‘ ہم کچھ نہیں کرسکتے
ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ کئی سوالات کو جنم دیتاہے اوریہ سوچا جاسکتاہے کہ کیا یہ رینجرزکی افادیت ثابت کرنے کے لیے ہورہاہے
وفاقی وزیرداخلہ عبدالرحمان ملک نے چند دن پہلے ایک بارپھربڑے دھڑلے سے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ختم کرادی ہے اور اس کا بھرپور جواب قاتلوں نے اس طرح دیا کہ گزشتہ پندرہ دن سے شہر کراچی میں گولیاں چل رہی ہیں اورلاشیں گررہی ہیں۔ یوں تو کراچی میں کسی ایک ہفتہ کے لیے بھی ہدف بناکر قتل کرنے کا سلسلہ نہیں رکا لیکن بوٹ بیسن کے علاقہ میں رینجرزکے ہاتھوں ایک نہتے نوجوان کے بے دردی سے قتل کے بعد عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جارہاتھا کہ رینجرز کو شہرسے واپس بھیجاجائے‘ رینجرزکے کچھ یونٹوں کو سڑکوں سے ہٹاکر بیرکوں تک محدودکردیا گیا تھا اور جامعہ کراچی سے کئی برس بعد رینجرزکو ہٹالیاگیاتھا۔ اس پس منظرمیں اچانک شہرمیں تشدد اورٹارگٹ کلنگ میں اضافہ کئی سوالات کو جنم دیتاہے اوریہ سوچا جاسکتاہے کہ کیا یہ رینجرزکی افادیت ثابت کرنے کے لیے ہورہاہے۔ لیکن یہ سب کچھ تو ایک عرصہ سے رینجرزکی موجودگی میں ہوہی رہاتھا۔ رینجرز کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ رینجرزکو گولی چلانے کا حکم نہیں ہے اور یہ بات مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ کھلے عام دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود رینجرزحرکت میں نہیں آئے کیونکہ انہیں اس کا حکم ہی نہیں۔ پھر ان کی موجودگی اورتعیناتی کا فائدہ کیاہی؟ اب یہ جو لیاری‘ کورنگی اورگلبہار چورنگی پر رینجرز نے فائرنگ کی اورکچھ افراد مارے گئے تو شاید اس کاحکم مل گیاہوگا۔ بات صرف رینجرز کی نہیں‘ امن وامان قائم کرنا اور دہشت گردوں پرقابوپانا تو بنیادی طورپر پولیس کی ذمہ داری ہے اور وہ بھی اس میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ پولیس کی ناکامی سندھ انتظامیہ اورحکومت کی ناکامی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 2008ء کے بعد سے کراچی میں قتل وغارت گری عروج پر پہنچی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قتل وغارت گری میں ملوث دونوں جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی حکومت میں شامل ہیں اور پیپلزپارٹی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ قاتلوں کو پکڑنا تو کجا ان کی نشاندہی ہی کرسکے۔ وزیر داخلہ سندھ ذوالفقارمرزا نے کچھ جرات سے کام لیا تھا تو انہیں عضو معطل بنادیاگیا۔ ان کے انکشافات سے متحدہ ناراض ہورہی تھی اور متحدہ کی ناراضگی سے وزیراعظم گیلانی کا سنگھاسن ڈول جاتاہے۔ انہیں منانے کے لیے رحمان ملک تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں اور وزیراعظم کو بھی حاضری دینا پڑی۔ صرف اقتداربچانے کے لیے لاشوں کی گنتی کے سوا کچھ نہیں کیاجارہا۔ گذشتہ دو ہفتوں سے جاری قتل عام پروزیراعظم صاحب نے قومی اسمبلی میں فرمایاہے کہ یہ تو صوبائی معاملہ ہے‘ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ یعنی اگر پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بے بس ہے تو لوگوں کو مرنے دو‘ کیا فرق پڑتاہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کیوں بارباردوڑے چلے آتے ہیں اور وزیر داخلہ سندھ جب ٹارگٹ کلرزمیں متحدہ کا نام لیتے ہیں تو انہیں کیوں چپ کرادیاجاتاہے۔ کیا وزیراعظم کی ذمہ داری صرف اسلام آباد تک ہی؟ مگر وہاں بھی کون سا امن وامان ہے۔ اس کے بارے میں سید صاحب کہہ دیں کہ یہ تو بین الاقوامی معاملہ ہے‘ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ اور حقیقت تویہ ہے کہ عوام کو درپیش کوئی بھی مسئلہ ہو‘ وزیراعظم اور ان کے حواری کچھ نہیں کرسکتے۔ انہیں صرف 5 سال پورے کرنے سے غرض ہے خواہ کیسے بھی ہو۔ ستم یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی دونوں ہی ایک دوسرے پر ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگارہے ہیں اور دونوں ہی کسی سے کم نہیں ہیں۔ متحدہ کی رابطہ کمیٹی کا کہناہے کہ ہمارے کارکنوں کے قتل میں ملوث لوگوں کو کراچی کے شہریوں سے کوئی ہمدردی نہیں‘ وہ صرف شہرپرقبضہ کرنا چاہتے ہیں رابطہ کمیٹی نے الزام لگایا ہے کہ اے این پی نے کسی بھی واقعہ کی آڑ میں کراچی کو خون میں نہلانے اورشہرمیں دہشت گردی کا بازارگرم کرنے کا سلسلہ شروع کررکھاہے۔ اس سلسلہ میں متحدہ نے کے ای ایس سی کے ملازمین کی آڑ میں اے این پی کی طرف سے ہڑتال کا حوالہ دیاہے۔ رابطہ کمیٹی کے مطابق خیبرپختونخوامیں دہشت گردوں کا سامنا کرنے میں ناکام عناصرکراچی میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ جہاں تک شہرکراچی پرقبضہ کرنے والی بات ہے تو یہ بالکل صحیح ہے۔ متحدہ نے ایک عرصہ سے شہراورشہریوں کو یرغمال بنارکھا تھا اب اس کھیل میں اے این پی بھی شریک ہوگئی ہے اور شہری دوطرف ہی نہیں کئی طرف سے مارے جارہے ہیں۔ متحدہ کا دعویٰ تھا کہ یہ شہر اس کا ہے مگر اب اس دعوے کو چیلنج کردیاگیاہے۔ ایم کیو ایم اورپشتوبولنے والوں میں اس سے پہلے بھی خونریزی ہوچکی ہے۔ سہراب گوٹھ پرتصادم پھر اس کے بعد قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں محاصرہ کرکے رات بھرقتل عام اور پھر پورے شہرمیں فساد۔ان واقعات کے ذمہ دارکبھی نہیں پکڑے گئے جس سے قاتلوں کے حوصلے بڑھے۔ اور اب اسی کے نتائج اہل شہربھگت رہے ہیں۔ دہشت گرد صرف وہی نہیں جوبم دھماکے کرتے ہیں۔ خودکش حملے کرتے ہیں اور خیبرپختونخوامیں تباہی پھیلاتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے کئی روپ ہیں اور کئی زبانیں بولنے والے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے پکا قلعہ اور حیدرآباد کے بازارمیں قتل عام کیاتھا اور وہ بھی ہیں جو امن کمیٹی کے نام پر بدامنی پھیلارہے ہیں۔ نہ پہلے کبھی قاتل پکڑے گئے اور نہ اب امکان ہے۔ جو پکڑے بھی جاتے ہیں وہ قانونی پیچیدگیوں ‘گواہوں کے خوف زدہ ہونے اور وکیلوں کی موشگافیوں کی وجہ سے ’’باعزت‘‘ بری ہوجاتے ہیں۔ تازہ مثال متحدہ کے کارکن اجمل پہاڑی کی ہے جس سے اعترافات توکئی کروالیے گئے ہیں لیکن مقدمات کا آغاز ہوتے ہی ایک مقدمہ قتل میں توبری ہوچکاہے۔ مزید مقدمات میں بھی یہی کچھ ہوسکتاہے۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے گزشتہ دنوں متحدہ اور اے این پی ‘ دونوں ہی کے ٹارگٹ کلر پکڑے ہیں‘ نتیجہ جانے کب اورکیا نکلے۔ فی الحال جو نتیجہ سامنے ہے وہ یہ ہے کہ لوگ قتل ہورہے ہیں اور قاتلوں کے سرپرست باہم مذاکرات میں مصروف ہیں کہ سیزفائرکردیاجائے۔ رابطہ کمیٹی کہتی ہے کہ اورنگی میں ہمارے کارکنوں پر اندھا دھندگولیاں برسائی گئیں اور اے این پی کہتی ہے کہ ہمارے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کا نوٹس لیاجائے۔ اہل شہرکو نوید ہوکہ وزیراعلیٰ سندھ نے فوری نوٹس لے لیاہے‘ وہ یہی کرسکتے ہیں۔ اورمنگل کو بھی اورنگی‘ پیرآباد‘ کٹی پہاڑی‘ عزیزآباد اور ملیرمیں گولیاں چلتی رہیں۔ منگل کو مارے جانے والوں میں دو بچے بھی ہیں۔ بڑے ہوکر جانے کس تنظیم میں شامل ہوتے۔ کراچی شہرپرکس کا قبضہ مستحکم ہوگا‘ اس کا فیصلہ ہونے تک لاشیں گرتی رہیں گی۔ یہ تو طے ہے کہ شہرپر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کوئی کنٹرول نہیں اور اب تو قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کہتے ہوں گے کہ ہماری بلاسے‘ مارو ایک دوسرے کو‘ ہم تو واپس اپنے اپنے شہرچلے جائیں گے۔ جناب الطاف حسین کہتے ہیں کہ ’’بھارت سے دوستی اورخیرسگالی چاہتے ہیں‘‘۔کاش
رپورٹ : ریحان علی