Published On: Tue, Jun 21st, 2011

توانائی کا بحران،ہم صرف سورج، پانی پر ہی انحصار کیوں کر رہے ہیں؟

Share This
Tags

ہم اب بھی دنیا کے مہنگے ترین سولر سسٹم کی طرف توجہ دے رہے ہیں جس کیلئے ہمیں مغرب کا ہی مرہونِ منت ہونا پڑے گا

اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا توانائی کے بحران میں مبتلا ہے اور ہر ملک اپنے ذرائع اور ضروریات کو دیکھتے ہوئے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے کوششوں میں مصروفِ عمل ہے اور پاکستان کے ارباب اختیار اور سائنسدان بھی اس بحران سے نبرد آزما ہونے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم صرف ایک رْخ پر کام کررہے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کررہے کہ ہم اس توانائی کے بحران سے کیسے نمٹیں ہماری زیادہ تر کوشش یہ ہے کہ شمسی توانائی سے استفادہ کیسے کریں، یا رینٹل پاور پلانٹ لے کر وقتی طور پر بحران پر قا بو پالیں۔ اس سے قطع نظر کہ اس کے اثرات عام زندگی پر کیا پڑتے ہیں یا اس کے اخراجات کہاں تک جاتے ہیں ہم اپنے ملک کے ذرائع کو دیکھتے ہوئے کام کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے ہم بجلی بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ختم کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے کوئی مربوط لائحہ عمل اختیار نہیں کررہے بلکہ مہنگے ترین ذرائع پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔ہمارا پانی عرصہ درازسے سمندر میں گر کر ضائع ہورہا ہے مگر ہم ڈیم نہ بنا سکے اور اب ہم دنیا کے مہنگے ترین سولر سسٹم کی طرف توجہ دے رہے ہیں جس کے لئے ہمیں مغرب کا ہی مرہونِ منت ہونا پڑے گا مگر اس سے پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوگا اس کے برعکس اگر ہم تھوڑی سی توجہ دوسرے ذرائع کی طرف دیں تو یقینی طور پر اس کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہوجائیں گے۔
پاکستا ن کاشمار بھی ڈیری کی مصنوعات میں دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتاہے اس لحاظ سے اس کے پاس جانور بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کا گوبر باہر پڑے رہنے کی وجہ سے سودمند ہونے کی بجائے مضر صحت و ماحول ہے۔ گوبر کو انسان صدیوں سے اپنے استعمال میں لاتا رہا کھیتوں میں بطورِ کھاد اور گھروں میں بطورِ ایندھن۔ مگر یہ دونوں طریقے جہاں تھوڑاسا فائدہ دیتے تھے وہیں پر اس کے مضر اثرات بھی ماحول میں پڑتے تھے جن میں سانس کی بیماریاں، آنکھوں کی بیماریاں اور ماحولیاتی آلودگی وغیرہ سر فہرست ہیں مگر گذشتہ چند سالوں سے پاکستا ن کے اداروں جن میں انرکان اے ای ڈی پی اور پاکستان کونسل فور رینیوایبل انرجی ٹیکنولوجیز (پی سی آر ای ٹی) وغیرہ شامل ہیں نے بائیو گیس پر خاطر خواہ کام کیا اور اس میں بھی کریڈٹ پکریٹ کو زیادہ جاتا ہے کہ اس نے ملک کے طول و عرض میں بائیو گیس پلانٹ کو متعارف کرایا ہے اس سے جہاں خاتو نِ خانہ کو صاف ستھری گیس ملی وہیں پر اس کے ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ایک گھر جو ایک مہینہ میں ایک درمیانے سائز کے درخت کو کاٹ کر اپنی ضروریا ت پورا کرتا تھا کٹنے سے بچا، اس سے فضا میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں توازن پیدا ہوا جس سے فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوئی۔
ہمارے قارئین بھی سوچ رہے ہونگے کہ اس ایک بائیو گیس پلانٹ سے توانائی کے بحران پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے تو عرض کرتے چلیں کہ بائیو گیس جدید تحقیق کے مطابق صرف کھانا پکانے کے کام ہی نہیں آتی بلکہ اس سے ٹیوب ویل بھی چلائے جاسکتے ہیں اور اس سے جنریٹر چلا کر بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے، صرف اس ذریعہ پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے جبکہ پکریٹ کے ہی زیرِ انتظام دینہ میں ایک ریسٹورنٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی ایک ریسٹورنٹ کامیابی سے چلایا جارہا ہے جبکہ پاکپتن میں ایک حکیم صاحب کی فارمیسی بھی اسی بائیو گیس سے چلائی جارہی ہے جس سے وہ ہزاروں روپے کی بچت کرتے ہیں۔ مگر زیرِ نظر مضمون میں ہمارامقصد بائیو گیس کو صرف زراعت کے استعمال کے لئے سود مند بنانے کے بارے میں ہے ایک بائیو گیس پلانٹ پر لاگت تقریباً پچاس ہزارسے لے کرساٹھ ہزار تک آتی ہے جو ایک چار انچ قطر کے ٹیوب ویل کو تقریباً تین سے چار گھنٹے تک روزانہ چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اسی دورانیہ کے لئے ٹیوب ویل کو ڈیزل پر چلایا جائے تو تقریباً چار لیٹر ڈیزل استعمال ہوتا ہے جس کی قیمت تین سو بیس روپے بنتی ہے اس طرح ایک ٹیوب ویل سے تقریباً سالانہ ایک لاکھ پندرہ ہزار دو سوروپے کی بچت ہوتی ہے جبکہ کھاد کی مد میں بچنے والا زر مبادلہ اس کے علاوہ ہے جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بائیو گیس پلانٹ سے بننے والی کھاد فصلوں اور زمین کے لئے کسی بھی دوسری کھاد سے زیادہ مفیدہے اس کھاد کے استعمال سے فصل جاندار ہوتی ہے اور اس پر وائرس کا حملہ بھی نسبتاً کم ہوتا ہے فصل کی قوتِ مدافعت بھی بڑھ جاتی ہے اور زمین بھی جاندار رہتی ہے۔ اگر ہنگامی طور پر پاکستان میں بائیو گیس کے استعمال سے زراعت کو سود مند بنانے کے لئے پروگرام ترتیب دئیے جائیں تو ہم یقینی طور پر کسی حد تک توانائی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
آج سے تقریباً تین سال قبل ڈسکہ کے علاقہ پنڈ ملہیاں میں محترم عباس ملہی کے ساتھ مل کر بائیو گیس سے ٹیوب ویل چلانے کا پروگرام بنایا گیا جس کے دوران ایک مرتبہ پیٹر انجن جل بھی گیا اور لوگوں کے طعنے بھی سننا پڑے مگر آج اس سے وہی لوگ فائدہ بھی اٹْھا رہے ہیں۔بالکل اسی طرح بائیو گیس سے انجن چلانے کا تجربہ ہے کہ آج کئی جگہ پر لوگ اس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں پہلے پہل تو نتائج کچھ حوصلہ افزا نہ تھے مگر مسلسل تحقیق اور محنت سے آخر کار ٹیوب ویل چلانے میں کامیاب ہو ہی گئے اور آج تقریباً گذشتہ تین سالوں سے مسلسل پیٹر انجن بائیوگیس سے چلا کر زمینوں کو سیراب کیا جارہا ہے جبکہ اس دوران صرف بیس فیصد ڈیزل استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے نکلنے والے فضلے کو بطور ایندھن استعمال کیا جارہا ہے جس سے زمین کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اگر ہم فوری طور پر دس ہزار زرعی ٹیوب ویلوں کو اس پر چلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن کی لاگت تقریباً پچپن کروڑ بنتی ہے اور جس کی تکمیل کے لئے تقریباً ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا، بچت کا تخمینہ لگا یا جائے تو خالص بچت کروڑوں میں نکلتی ہے ایک درمیانے سائز کے بائیو گیس پلانٹ کی تنصیب پر تقریباً ساٹھ ہزار کا خرچ آتا ہے جبکہ وہ ڈیزل کی مد میں سالانہ ایک ہزار چار سو چالیس لیٹر ڈیزل کی بچت کرتا ہے۔جس کی مارکیٹ میں قیمت تقریباًایک لاکھ پندرہ ہزار بنتی ہے اگر اس میں سے پلانٹ کی تنصیب پر آنے والے خرچ کو نکال دیا جائے توایک سال میں پلانٹ کی قیمت نکال کر پچپن ہزار روپے سالانہ کی بچت ہوتی ہے اس تناسب سے دس ہزار بائیو گیس پلانٹ سے تقریباًپچپن کروڑ روپے بچت ہوسکتی ہے اگر حکومت ساٹھ کروڑ لگا کر پچپن کروڑ کی سالا نہ بچت کرلے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔
بائیو گیس سے ٹیوب ویل چلنے سے چونکہ براہ راست فائدہ زمیندار ہی حاصل کرے گا اس لئے زمیندار اس کی تکمیل کے لئے کچھ کام اپنے ذمہ لینے پر آسانی سے رضا مند ہو جائے گا اور حکومت مندرجہ بالا تخمینہ سے بھی کم لاگت میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ٹیکنولوجی ایسی نہیں جو سال کے اندر اپنی قیمت بھی پوری کرے اور بچت بھی دے اس ٹیکنولوجی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک مرتبہ اس کو سمجھ لینے کے بعد پھر کبھی ماہرین کی ضرورت نہیں رہتی اور اگر بوقت نصیب صحیح میٹریل استعمال کیا جائے اور اس کی مناسب دیکھ بھال ہوتی رہے تو بیس سالوں تک اس بائیو گیس پلانٹ کو کچھ نہیں ہوتا اسی طرح اگر ہم بجلی کی بچت کی طرف آئیں اور سرسری طور پر ان ٹیوب ویل کا جائزہ لیں جو بجلی سے چل رہے ہیں تو وہ عام طور پر اٹھائیس ہارس پاور کے ہوتے ہیں جو ساٹھ فٹ کی گہرائی سے پانی نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایک گھنٹہ میں تقریباً پندرہ سے بیس یونٹ استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم بائیو گیس سے ٹیوب چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو جو بجلی کی بچت دیہات میں ٹیوب ویل سے ہو گی وہ شہروں میں دی جا سکتی ہے جس سے لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
وہ قومیں جو ترقی کرنا چاہتی ہیں سب سے پہلے اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں بالکل چین کی طرح اور چیونٹی کی طرح دانہ دانہ چننے میں مصروف رہتی ہیں قیادت اور قوم ایک بات پر متفق ہوجاتی ہیں کہ وہ دریا کاانتظار نہیں کریں گے جبکہ ہم دریا اور ڈیم کے انتظار میں اپناذخیرہ بھی ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ہم اپنے دریاوں کو ضائع کرکے زمینوں کو بنجر کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آنے والی نسلوں کوخشک دریا اور بنجر زمینیں تحفے میں دینے کا انتظام کررہے ہیں۔ان سب باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ظفر حسین
Displaying 3 Comments
Have Your Say
  1. Khawar says:

    this is really good. if we can do this.
    This was done in the 70’s too, dont know why it was stopped at that time.

  2. Javaid Mian, Calgary, Canada says:

    It is really good in Pakistani situation, but, We have to try other options like solar technology too

  3. shomail ahmad says:

    Hello would you be able to provide me with link of above mentioned companies
    I will be really greatful. I am looking for something like this

Leave a comment