چار پاکستانیوں کے صومالی قزاقوں کی قید میں 9 ماہ اور 11 دن کیسے گزرے؟
صوبالی قزاقوں کی قید سے رہائی پانے والے کیپٹن وصی ایک نئی زندگی کی چمک آنکھوں میں بسائے چند ہی دنوں میں پاکستان پہنچنے والے ہیں۔ممکن ہے کہ جس وقت یہ تحریر آپ پڑھ رہے ہوں ، اس وقت تک وہ گھر پہنچ چکے ہوں ۔یہ دن ان کی زندگی میں ہزاروں عیدوں سے زیادہ خوشیاں لایا ہے۔ اپنوں سے ملنے کی خوشی۔۔اپنی اولاد سے قریب آنے کی نوید۔۔۔اور پھر سے آزاد فضاء میں سانس لینے کی شادمانی لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔۔۔۔لیکن یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ وہ نوماہ اورگیارہ دنوں کی قیدان کی زندگی کا وہ تلخ ترین عرصہ ہے جو وہ ساری زندگی نہیں بھلاسکتے۔
26جولائی سے 2اگست 2010ء تک
اس دن کا آغاز بھی عام دنوں جیسا ہی تھا۔ وہ معمول کے مطابق گھر سے کراچی کی بندرگاہ کے لئے نکلے جہاں سے ان کے بحری جہاز ایم وی سوئزکوسیمنٹ لے کر افریقہ کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ یہ مصری کمپنی کا جہاز تھا۔ 26جولائی سے دو اگست تک کا سفر سمندروں کی لمبائی ،چوڑائی ناپنے میں گزرا۔ اسی دن یعنی دوا گست 2010ء کو یہ جہاز خلیج عد ن پہنچا ہی تھا کہ وہ ناگہانی آفت آگئی جس نے سب کو ہلاکر رکھا دیا۔ صومالیہ سے تعلق رکھنے والے چند بحری قزاقوں نے آناً فاناً اسلحے کے زور پر جہاز پر قبضہ کرلیا۔ کئی گھنٹے تو یہ سمجھنے میں ہی گزر گئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور جہاز کے عملے کو اپنی جانیں بچانے کے لئے کیا کرنا ہوگا۔ انہوں نے زور اور زبردستی سے بائیس افراد کو یرغمال بنالیا۔ یرغمال بنائے جانے والوں میں چار پاکستانی، چھ بھارتی، گیارہ مصری اور ایک سری لنکن شہری تھا۔ قزاقوں کا مطالبہ تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے 21 لاکھ ڈالر تاوان دیا جائے۔
اپریل 2011ء میں کیپٹن وصی کی دس سالہ بیٹی لیلیٰ کی جانب سے گردہ بیچنے کے اعلان کو پاکستان کے سماجی کارکن انصار برنی ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی انصار برنی نے بھی سنا۔ اس بیان سے وہ خود کوروک نہیں پائے اور انہوں نے رہائی کے لئے دل وجان سے کوششیں شروع کردیں۔ انہوں نے صوبہ سندھ کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی( سی پی ایل سی) کے سربراہ احمد چنائے سے فوری رابطہ کیا۔ شپنگ کمپنی اور دیگر افراد سے بھی رابطے ہوئے۔ قزاقوں کی جانب سے طلب کردہ 21 لاکھ ڈالر میں سے شپنگ کمپنی نے دس لاکھ ڈالرز دینے کا اعلان کیا جبکہ پانچ لاکھ ڈالر ایک غیر ملکی فلاحی تنظیم نے دینے کا اعلان کیا جبکہ چھ لاکھ ڈالرز کا انتظام کرنا ابھی باقی تھا۔
انصار برنی نے رقم کا انتظام کرنے کے لئے بھارت اور دبئی سمیت دیگر ممالک کا دورہ کیا۔ اس دوران بھارتی رکن پارلیمنٹ کیڈی سنگھ نے چھ لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا مگر ان کا یہ عہد پورا نہ ہوسکا۔ اس پر چندہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسری جانب یرغمالی تاوان کی وصولی کے لئے بار بار ڈیڈ لائن میں توسیع کرتے رہے۔اس دوران انہوں نے یرغمالیوں کو دیا جانے والا کھانا بھی انتہائی کم کر دیا۔ پہلے دن میں ایک بار چاول، میکرونی اور اسپیگٹی دیتے تھے تاہم بعد میں ان میں کمی کردی گئی۔یہاں تک کہ پینے کے لئے پانی بھی انتہائی کم کر دیا گیا۔ اس پر قزاقوں کا جسمانی تشدد بھی جاری تھا۔آخری تین ماہ میں یرغمالی بارش کا پانی چھان چھان کا پینے پر مجبور ہوگئے۔قزاق یرغمالیوں کی ڈرانے کے لئے دن میں کئی بار کئی کئی سو راؤنڈ ہوائی فائر بھی کرتے تھے۔ متعدد بار تو قزاقوں نے پستول یرغمالیوں کی کنپٹیوں سے بھی لگایا۔
کیپٹن وصی کے مطابق بار بار ڈیڈ لائن دینے کے بعد قزاق انتہائی غضبناک ہو گئے۔یہاں تک کے کئی بار انہوں نے انصاربرنی اور دیگر لوگوں سے رابطہ ہی منقطع کر دیا۔ تاہم بار بار کی کوششوں کے بعد حتمی مذاکرات طے ہوئے۔
کیپٹن وصی کے مطابق رواں ماہ تیس ہزار ڈالر یومیہ پر ایک طیارہ کرائے پرحاصل کیاگیا اور رقم قزاقوں تک پہنچادی گئی۔آخر کار قزاقوں نے رقم مشین سے چیک کرنے کے بعد جہاز ایم وی سوئز سے قبضہ ختم کردیا اور تمام یرغمالی اپنے اپنے وطن کے لئے روانہ ہوئے۔ 13 جون کو انصار برنی نے کراچی ائیر پورٹ پہنچتے ہی پوری قوم کو رہائی کی خبر دی۔ اسی شام گورنر سندھ کی جانب سے چاروں یرغمالیوں کے اہل خانہ کو گورنر ہاؤس بلایا گیا جہاں واقعے کی تمام تفصیلات سامنے آئیں۔
یرغمالیوں اور لواحقین پر کیا گزری؟؟
کیپٹن وصی حسن اور ان کے اہل خانہ
وصی حسن کا تعلق کراچی کے علاقے بفرزون سے ہے۔ وہ بدقسمت جہاز کے کپتان تھے۔ کیپٹن وصی کا گیارہ بہن بھائیوں میں تیسرا نمبر ہے۔ ان کی شادی 1991 میں دردانہ وصی سے ہوئی۔ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑے بیٹے کی عمر اٹھارہ سال ہے اور وہ انٹر میں زیر تعلیم ہے جبکہ دوسرا بیٹا گیارویں جماعت کا طالب علم ہے۔ ان کی ایک چھوٹی بیٹی بھی ہے جس کی عمر دس سالہ اور اس کا نام لیلیٰ ہے۔ لیلیٰ چھٹی جماعت میں پڑھتی ہے۔
سید عسکری کیپٹن وصی کے بڑے بھائی ہیں۔ قزاقوں کی جانب سے ان کے بھائی کو یرغمال بنانے کی اطلاع بیگم وصی کے ذریعے سب سے پہلے انہیں ہی ملی۔ سید عسکری نے سب سے پہلے یرغمال بنائے گئے باقی افراد کے اہل خانہ سے رابطہ کیا تاکہ ناگہانی آفت سے نمٹنے کا کوئی مشترکہ حل نکالا جاسکے۔ تمام افراد کے اہل خانہ کے نزدیک اس مسئلے کا فوری حل جہاز کا مالک ہی نکال سکتا تھا۔ تمام افراد نے جہاز کے مالک سے رابطہ کیا۔ چونکہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں تھا لہذا اس پرروزانہ پیش رفت بھی ممکن نہیں تھی۔ معاملے کی نزاکت کا سب کو علم تھا مگر اس کے باوجود ہر آنے والا دن فکریات میں اضافہ لے کر آتا تھا۔ کئی دنوں کی جان توڑ کوششوں کے بعد یہ معاملہ شپنگ کمپنی کے مالکان، عہدیداروں اور حکومت سے نکل کر میڈیا تک پہنچا۔ سب سے اہم مسئلہ 21 لاکھ ڈالر کا انتظام تھا۔ سب کچھ کرنے کے باوجود جلد ازجلد اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر مشکل ہورہا تھا۔ سب طرف سے تسلیاں اور تشفیاں دی گئیں مگر جیسے جیسے دیرہونے لگی دلوں کا قرار کھونے لگتا۔ا س تمام تر صورتحال میں کیپٹن وصی کی بیٹی دس سالہ لیلیٰ نے والد کی رہائی کیلئے اپنا گردہ فروخت کرنے کا اعلان کیا جس نے گویا پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لیلیٰ کا کہنا تھا کہ اس کے دو چھوٹے بھائی بھی اپنے ابو کی رہائی کے لئے اپنے گردے فروخت کرنے پر تیار ہیں۔
انجینئر سعید عالم
یرغمال بنائے جانے والوں میں انجینئر سعید عالم کا تعلق کراچی کے علاقے کورنگی سے ہے۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا معذور ہے۔ بڑی بیٹی شادی شدہ ہے جبکہ دوسری بیٹی نے بی کام کیا ہے۔ بڑا بیٹا ایم بی اے کرچکا ہے۔ انجینئر سعید عالم1991 سے بحری جہاز پر ملازم ہیں۔اس سے قبل وہ سعودی عرب کی بحریہ میں خدمات انجام دیتے تھے۔سعید عالم کے اہل خانہ کو جہاز پرقزاقوں کے قبضے کی اطلاع 4 اگست کو ان کے ایک دوست نے دی تھی۔ دو ماہ تک گھر والے مسلسل آنکھوں میں امید کے چراغ روشن کئے انتظار کی صلیب پر لٹکے رہے۔ دو ماہ بعد سعید عالم نے پہلی مرتبہ اپنے اہلخانہ سے رابطہ کیا۔ ابتدا میں رہائی سے متعلق ان کے حوصلے بہت بلند تھے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حوصلے پست ہو تے چلے گئے۔وہ فون پر بات کرتے کرتے رونے لگتے تھے جسے سن کر گھر والے مزید پریشان ہوجاتے۔ سعید عالم بہادر شخص تھے مگر اپنوں سے دوری نے انہیں کمزور کر دیا تھا۔
محمد مزمل
مغوی جہاز پر موجود محمد مزمل کا تعلق کراچی کے علاقے کیماڑی سے ہے۔مزمل چالیس سال سے شپنگ کمپنی سے وابستہ ہیں۔وہ ڈیزل چیکنگ آفیسر ہیں ، غیر شادی شدہ ہیں۔ان کے دو بھائی اور ایک بہن ہے۔ وہ دونوں سے بڑے ہیں۔ ایک بھائی بی کام کا طالب علم ہے جبکہ دسرا بھائی فرسٹ ائیر میں اور بہن پانچویں کلاس میں زیر تعلیم ہے۔ جہاز ہائی جیک ہونے کے چند دن بعد ان کی والدہ کواس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔جہاز ہائی جیک ہونے کی خبر ان کے بھائی کاشان کو دو اگست کو ہی مل گئی تھی۔ قزاقوں کا بہت زیادہ دباؤ تھا ، اس لئے مسلسل کوششوں کے باوجوبھی مزمل سے ان کے بھائی کا رابطہ نہیں ہوا لیکن دو اگست سے 31 دسمبر 2010 تک کمپنی کے مالک سے کاشان کی مسلسل بات چیت ہوتی رہی۔ ابتداء میں تو کمپنی کا مالک بھر پور تعاون کی یقین دہانیاں کرواتا رہا مگر جنوری دو ہزار گیار ہ میں اس کا کہنا تھا کہ نہ تو اسے جہاز چاہیے اور نہ ہی عملہ۔ جس کے بعد تمام امیدیں دم توڑنے لگیں۔یرغمال فرسٹ آفیسر علی رحمن ہائی جیک ہونے والے جہاز میں چوتھے پاکستانی تھے تاہم ان کے بارے میں بہت کم معلوم ہوسکا ہے۔
رپورٹ : وسیم اے صدیقی | کراچی