Published On: Sat, May 28th, 2011

مہران بیس حملہ بھارت،روس اوراسرائیل کے کمانڈوز نے کیا

دہشت گردوں کے سولہ گھنٹے تک فوج سے مقابلہ نے سکیورٹی
فورسز کی صلاحیتوں اوراس کی مستعدی پرسوالیہ نشان لگا دیا ،
گرفتار دہشت گردوں نے انٹیلی جنس اداروں کو گمراہ کرنےکے

لئے اپنا تعلق دہشت گرد تنظیم الجہاد ابو موسیٰ سے بتایا
لیکن ان کا تعلق روس کی دہشت گرد  تنظیم حزف سے ہے

مقبول ارشد
کراچی میں پاک بحریہ کے اےئر بیس پر ہونے والا دہشت گردوں کا حملہ بالکل ایک فلم کی طرح لگ رہا تھا ۔ دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے ۔ جدید ترین اسلحہ ان کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ واکی ٹا کی پر اپنے کمانڈر سے ہدایات بھی لے رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ فائرنگ کرتے ہوئے راکٹ لانچروں سے بحریہ کے ان قیمتی جہازروں کو بھی تباہ کر رہے تھے جو خاص طور پر بھارت کے لئے ایک خطرہ بنے ہوئے تھے ۔
اس دہشت گرد حملہ کا اختتام اس وقت ہوا جب سولہ گھنٹے بعد کمانڈ وز نے بالاآخر چار دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ۔ اس وقت تک دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے ۔ بحریہ کے دو پی این ایس جہازوں کو تباہ کرنے کے علاوہ دس سے زائد فوجی جوان بھی شہید ہو چکے تھے اور اس وقت پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی تھیں ۔ جس کی فورسز نے چار دہشت گردوں کو قابو کرنے کے لئے سولہ گھنٹے لگا دےئے ۔ڈیڑھ دن بعد جب آپریشن ختم ہوا توجہاں تباہی اور بربادی کی داستانیں چھوڑ گیا وہاں کئی ایسے سوالات بھی چھوڑ گیا جن کے جوابات نہ تو حکومت کے پاس ہیں اور نہ ہی سکیورٹی اسٹبلشمنٹ کے پاس ہیں۔
مہران بیس پر ہونے والے دہشت ناک حملے سے جہاں دنیا بھر میں ایٹمی قوت کہلانے والی فوج کی صلاحیت کا بھرم چکنا چور ہو گیا وہاں ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے مسلسل سولہ گھنٹے تک فوج سے مقابلہ نے سکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں اور اس کی مستعدی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اے کے 47رائفلوں، بموں اور راکٹ لانچروں سے لیس سیاہ وردی میں ملبوس یہ چند افراد کراچی میں بحریہ کے فضائی اڈے پر نصب سیکورٹی کیمرے تباہ کرتے ہوئے اس کی عقبی دیوار تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے بعد دو سیڑھیوں سے وہ دیوار پر چڑھ کر تاروں کی باڑھ کاٹتے ہوئے اند داخل ہو جاتے ہیں اور پھر سولہ گھنٹے تک فوج سے مقابلہ کرتے ہیں۔دہشت گردوں کی اس دلیرانہ کارروائی سے واضح ہو جاتا ہے کہ ملک کی اہم ترین تنصیبات بشمول ایٹمی اسلحہ کی حفاظت میں سکیورٹی فورسز کتنی مستعد اور اہل ہے۔ ان دہشت گردوں نے، جن کی تعداد بمشکل چار سے چھ تھی، امریکہ سے حاصل سمندر میں نگرانی کرنے والے دو جنگی طیارے تباہ کر دئے اور 17گھنٹے تک پاکستانی فوج سے ٹکر لیتے رہے جبکہ اس دوران پاکستانی فوج نے بحریہ اور بری فوج کے جوانوں اور فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں تک کی خدمات حاصل کر لی تھیں پھر بھی 10پاکستانی فوجی ہلاک اور 15زخمی ہو گئے جبکہ صرف چار دہشت گرد ہی مارے جا سکے اور دو پھر بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
مہران بیس پر ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ آخر حملہ آور کس طرح ایک ایسی ہائی سکیورٹی بیس کے اندر پہنچنے میں کس طرح کامیاب ہو گئے جس کی حفاظت پر گیارہ سو محافظ معمور ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ڈیڑھ میل تک ائیر بیس کے اندر پیدل چلتے رہے ہوں اور انہیں کسی نے نہیں دیکھا ہو۔ یقینی طور پر دہشت گردوں کو بیس کے اندر سے کسی نہ کسی کی مدد ضرور حاصل ہو گی ۔ اگر ایسا ہے تو وہ غدار کون تھے جن کی بدولت جہاں دہشت گردوں نے دس قیمتی جانوں کوضا ئع کر دیا وہاں دس ارب سے زائد مالیت کے جہازوں کو نقصان پہنچا کر کمر توڑ کر رکھ دی۔
اگرچہ کراچی میں مہران بیس پر ہونے والے شدت پسند حملے کی تحقیقات جاری ہیں لیکن آپریشن کے بعد سامنے آنے والے حقائق سے یہ ظاہر ہوگیا ہے اس اہم ترین بحری اڈے کی سیکیورٹی ناقص تھی اور حملہ آووروں کے خلاف فورسز کی جانب سے موثر مزاحمت نہیں کی گئی۔پاک بحریہ کے ربراہ ایڈمرل نعمان بشیر لاکھ چاہے اس بات کی وضاحت کریں کہ کہ یہ سکیورٹی کی ناکامی نہیں تھی لیکن ان کی اس بات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ۔
مہران بیس پر حملے کے آغاز سے ہی یہ واضح تھا کہ حملہ آوروں کو اس بیس کے بارے میں تفصیلی معلومات تھی اور ان کو یہ بھی پتہ تھا کہ بیس کی سکیورٹی کمزوریاں کہاں اور کیا ہیں۔
ان حملہ آوروں کے پندرہ گھنٹے تک نیوی کے کمانڈوز سے مقابلہ کرنے کے بعد اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ چند طالبان جنگجوؤں ( حکومتی دعویٰ کے مطابق اگر یہ طالبان جنگجو تھے) نے نیوی کے مخصوص ایس ایس جی کمانڈوز کا مقابلہ اس طرح کیسے کر لیا۔
حملہ آور اےئر بیس کے اندر کیسے گھسے؟
ذرائع کے مطابق دہشت گرد تار کاٹ کر اور بیس کے مشرقی جانب سے دیوار کے اوپر سے آئے تھے‘ جو سکیورٹی کے لحاظ سے ایک کمزور علاقہ تھا اور حملہ آوروں کو اس کا علم تھا۔اس کے علاوہ حملہ آوروں کو اندر کی بھی کافی معلومات حاصل تھیں ۔ وہ جہاں سے اندر آئے وہ رن وے کے بالکل ساتھ ہے اور اس سے نگرانی کا ٹاور کافی فاصلے پر ہے کیونکہ یہاں طیارے اترتے ہیں۔ حملہ آوروں کو پہلی مرتبہ رن وے کے اوپر ہی دیکھا گیا جب وہ مسلح ہو کر لڑائی کے لیے تیار ہو چکے تھے۔
پولیس کو بیس کے عقبی حصے سے سے دو سیڑھیاں بھی ملی ہیں جو دیوار کے اندر اور باہر کی جانب لگی ہوئی تھیں۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور ان سیڑھیوں کی مدد سے بیس میں داخل ہوئے۔حکام کے مطابق بیس کے کونے پر گندے نالے کے اوپر ایک چھوٹی پلیہ بنی ہوئی ہے اور یہ علاقہ کافی ویران ہے حملہ آوروں نے بیس میں داخلے کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیا۔تاہم فوجی تفتیشی حکام نے ان اطلاعات کو مسترد کیا کہ حملہ آور اس نالے کو عبور کرکے اندر تک پہنچے، ان کے مطابق اگر وہ اس نالے سے گذرے کر پہنچتے تو ان کے کپڑوں پر نشانات موجود ہوتے جو نہیں تھے۔جس دیوار کو حملہ آور عبور کرکے داخل ہوئے یہ دیوار تقریبا آٹھ فٹ اونچی ہے اور اس پر کئی مقامات پر خاردار تاروں کا وجود ہی نہیں ہے اور جہاں موجود ہیں وہ بھی ٹوٹی ہوئی ہیں۔ جبکہ دیوار پر پانچ سو میٹر کے فاصلے سے آمنے سامنے چھ کیمرے لگے ہوئے ہیں۔تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ جس جگہ دیوار کودنے کے لیے سیڑھی استعمال کی گئی وہاں دیوار خم کھاتی ہے جبکہ کیمرے کا رخ سیدھا ہے جس کے باعث حملہ آور کیمرے کی نظر سے بچنے میں کامیاب رہے۔
حملے کے دوران ان دہشت گردوں نے مجموعی طور پر 1150 راؤنڈ اور سات راکٹ فائر کئے۔ دہشتگردوں نے کلاشنکوفوں سے 860‘ ٹرپن ٹو رائفل سے 165 اور ایل ایم جی سے 29گولیاں فائر کیں۔ حملے کے بعد فائر کئے گئے راکٹ کے خول قبضے میں لے لئے گئے جبکہ 12دستی بم‘ چار کلاشنکوف‘ 55گولیاں‘ پانچ خالی میگزین اور دو راکٹ لانچر بھی قبصے میں لئے گئے ہیں۔ بیس کے قریب جھاڑیوں سے ایک واکی ٹاکی بھی برآمد ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ حملے کے وقت دہشتگرد اپنے کمانڈر سے اس واکی ٹاکی پر مسلسل رابطے میں رہے۔ پولیس کی برآمدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آوروں نے بے د ریغ فائرنگ کی جبکہ فورسز کی جانب سے اس کے مقابلے میں اجتناب برتا گیا۔جائے وقوع سے پولیس کو دو غیر استعمال شدہ راکٹ، دس ہینڈ گرنیڈ، چار ایس ایم جیز، اس کی غیر استعمال شدہ پچپن گولیاں اور ایک خودکش حملے کے لیے تیار جیکٹ بھی ملی ہیں۔ہلاکت کے بعد میں ان حملہ آوروں سے پورے احاطے کے نقشے بھی بر آمد ہوئے۔حملہ آور اپنے ساتھ راشن کے طور پر خشک میوے کی تھیلیاں لے کر آئے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طویل کنگ کی منصوبہ بند ی کے ساتھ آئے تھے ۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ حملہ آور اپنی کارروائی میں تبدیلی بھی لائے۔ حملہ آور ان بیریکس کی جانب بڑھ رہے تھے جہاں چینی انجینئرز موجود تھے لیکن نیوی اہلکاروں نے ان کو فائرنگ کے تبادلے سے روکے رکھا تاکہ مزید کمک چینی انجینئروں کے پاس پہنچ سکیں۔ جب حملہ آوروں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ان بکتر بند گاڑیوں پر فائرنگ شروع کر دی جن میں چینیوں کو لے جایا جا رہا تھا۔جب چینی انجینئیروں کو بیریکس سے لے جایا گیا تو یہ حملہ آور الگ الگ گروپوں میں ہو گئے اور ایک گروپ قریبی بیریکس میں گْھس گیا۔ایک سکیورٹی اہلکارکے مطابق ان حملہ آوروں کو بیس کے جغرافیہ کا بھی پورا علم تھا۔’معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بیریکس کے اندر کا سب پتہ تھا اور یہ بھی کہ کس طرف کیا ہے۔
تحقیقات کا آغاز یا وقت کا ضیاع
حکومت کی ہدایت پرپاک بحریہ کے ریئرایڈمرل تحسین اللہ کی سربراہی میں 13رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے بیس کے تمام افسران اور اہلکاروں کو شامل تفتیش کرکے تمام اہلکاروں کے حملے سے قبل اور بعد کا ٹیلیفون ریکارڈ طلب کر کے ان کے بیانات قلمبند کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔اس کمیٹی میں پاک بحریہ‘ پاک فضائیہ ‘ ایف آئی اے‘ پولیس اور رینجرز کے اہلکار شامل ہیں ۔ تمام افسران اور اہلکاروں کا حملے سے قبل اور بعد کا ٹیلیفون ریکارڈ بھی طلب کرلیا گیا ہے، تفتیش کے دوران دیکھا جائیگاکہ کس افسر اور اہلکار نے کس سے فون پر کیا بات کی۔ اس کے علاوہ بیس کی چیک پوسٹ نمبر9کے اہلکاروں کے کوائف بھی طلب کرلیے گئے ہیں۔
ایک طرف تفتیشی کمیٹی اپنا کام کر رہی ہے تو دوسری طرف فو جی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی اپنا کام کر رہی ہیں ۔ انٹیلی جنس داروں نے پی این ایس مہران بیس کے ارد گرد آبادی میں چھاپے مار کر مخصوص نظریات والے افراد کو پوچھ گچھ کیلئے حراست میں لیا ہے جن سے حملے کے بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔
’’ فیکٹ ‘‘ کو انٹیلی جنس اداروں کے ذرائع سے پتہ چلنے والی اطلاعات کے مطابق اس بات کا پتہ چلا لیا گیا ہے کہ حملہ آوروں میں سے تین ازبک اور ایک پاکستانی تھا۔ پاکستانی حملہ آور اس دہشت گرد حملے کی قیادت کر رہا تھا۔ دو حملہ آوروں کی عمریں 20 سال ایک کی 30 سال جبکہ ایک دہشت گرد کا صرف نچلا دھڑ ملا ہے جس کے باعث اس کی عمر کے تعین میں مشکلات درپیش ہیں۔
فوجی تفتیش کاروں کے مطابق دہشت گرد انتہائی تربیت یافتہ تھے۔ وہ بہت ہی منجھے ہوئے فائٹر تھے اور انہیں مختلف ہتھیاروں پر عبور تھا ،صرف یہی نہیں کہ وہ راکٹ فائر کر سکتے ہیں یا کلاشنکوف ہی اچھی چلا سکتے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان میں عام طور پر ایک فرد ایسا ہوتا ہے جسے راکٹ اچھا چلانا آتا ہے جبکہ کوئی اور کلاشنکوف اچھی چلا سکتا ہے لیکن ان دہشت گردوں میں خاص بات یہ تھی کہ وہ جو ہتھیار بھی استعمال کررہے تھے، بہت ماہرانہ انداز میں کر رہے تھے۔انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق بے شک طالبان میں ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کی مہارت رکھتے ہیں لیکن جس طرح ان دہشت گردوں نے حملہ کیا اور جس طرح سے یہ دہشت گرد ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے تھے اس سے یہ لگتا تھا کہ ان کا طالبان سے تعلق نہیں۔انٹیلی جنس حکام کے مطابق حملہ کرنے والے یہ دہشت گرد آپس میں اس طرح بات کر رہے تھے جیسے فوجی کمانڈو کرتے ہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں کے مطابق حملہ آوروں کی گفتگو سن کر ایسے لگتا تھا جیسے وہ فوجی کمانڈو ہوں۔ایک حملہ آور دوسرے سے یہ کہتا سنا گیا کہ اس بندے پر ون او کلاک پر فائر کرو۔ بات چیت کا یہ انداز بڑا پیشہ وارانہ فوجیوں جیسا ہے۔ حملہ آور جس طرح کے ہتھیار استعمال کر رہے تھے طالبان عام طور پر ایسے ہتھیار استعمال نہیں کرتے کیونکہ ایک تو یہ نسبتاً زیادہ حساس ہوتے ہیں دوسرے ان کا استعمال مشکل ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیو ں نے اس حملے میں کسی نہ کسی طرح ملوث دس دہشت گردوں کو گرفتار کر لیاہے ۔ ان میں سے سات کو حملے کے دوسرے روز اور باقی تین کو تیسرے روز گرفتار کیا گیا۔ابتدائی تفتیش کے دوران ان گرفتار دہشت گردوں نے انٹیلی جنس اداروں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا تعلقے سے تعلق رکھنے والی دہشت گرد تنظیم الجہاد ابو موسیٰ سے بتایا۔لیکن بعد ازاں انہوں نے واضح کیا کہ ان کا تعلق روس کی دہشت گرد تنظیم حزف سے ہے جسے روس کی خفیہ ایجنسی کے جے بی نے افغان جنگ کے دوران مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کے لئے لانچ کیا تھا۔ان دہشت گردوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس حملے میں دیگر ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے بھی ان کی معاونت کی ۔جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ بھی شامل ہے۔ ذرائع نے اس سلسلے میں مزید بتایا کہ ان گرفتاریوں میں سب سے اہم گرفتاری فیصل آباد کے قاری قیصر کی یے ۔ قاری قیصر کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے ہے اور اسے ایک مدرسے سے گرفتار کیا گیا ۔ قاری قیصر کو حملہ آوروں سے رابطہ کے لئے کی جانے والی کال کے ذریعے پکڑا گیا ۔
تضا دات ہی تضادات، مقدمہ اور پھر جگ ہنسائی
وزیر داخلہ رحمن ملک نے آپریشن کے بعد دعویٰ کیا کہ 6 حملہ آور تھے جن میں سے 4 مارے گئے اور 2 فرار ہو گئے۔تاہم جب مقدمہ درج کیا گیا تو یہ جگ ہنسائی کا باعث بن گیا ۔ حملے کا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ اور ایکسپلوسیو ایکٹ کے تحت تھانہ شاہراہ فیصل لیفٹیننٹ عرفان کی مدعیت میں 12 نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ مقدمہ وفاقی وزیر داخلہ کے دعوے کے برعکس 6 کے بجائے 12 کے خلاف درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق دہشت گردوں سے 4 دستی بم، 4 کلاشنکوفیں، 2 خودکش جیکٹس اور ایک راکٹ لانچر برآمد ہوا۔ اتوار کی شب 10 بجکر 40 منٹ پر جدید اسلحہ سے لیس دہشت گرد بیس کے مشرقی حصے سے داخل ہوئے، 10 بجکر 50 منٹ پر نیوی ہینگر پر کھڑے پی تھری سی اورین پر دہشت گردوں نے راکٹ فائر قکئے جس سے زوردار دھماکہ ہوا اور طیارے میں آگ لگ گئی، تین منٹ بعد کمانڈوز نے انہیں گھیرے میں لیا اور فائرنگ کا آغاز ہو گیا۔ 11 بجکر 15 منٹ پر دوسرے طیارے میں بھی دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی۔ 11 بجکر 30 منٹ پر رینجرز کے تازہ دم دستے اور 11 بجکر 45 منٹ پر پاک فوج کے کمانڈوز بیس میں داخل ہوئے۔ دہشت گردوں نے نیوی ہینگر میں مورچے سنبھالے اور فائرنگ شروع کر دی۔ دہشت گردوں سے مقابلہ پوری رات جاری رہا۔ پیر کی صبح کمانڈوز کے تازہ دستے بیس میں داخل ہوئے اور نیوی ہینگر میں موجود دہشت گردوں سے فیصلہ کن معرکہ ہوا جو پیر کی دوپہر بالآخر 4 دہشت گردوں کی ہلاکت پر ختم ہوا۔ اس کارروائی میں پاک بحریہ اور رینجرز کے 10 اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ نیوی کے 11 اور رینجرز کے 3 اہلکار زخمی ہوئے۔ مارے جانے والے چاروں حملہ آوروں کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی۔ علاقے سے 4 مشکوک افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔
نیوی کی جانب سے درج ایف آئی آر کے مطابق چار حملہ آوروں میں سے تین کی ہلاکت خودکش جیکٹ پھٹنے سے ہوئی ہے۔ اس سے بھی فورسز کی مزاحمت کے مؤثر ہونے پر سوال اٹھتے ہیں۔غیر استعمال شدہ اسلحے سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلحہ ختم ہونے سے قبل حملہ آوروں نے خودکش جیکٹوں کا استعمال شروع کیا اور اس سے پہلے تک وہ مزاحمت کرتے رہے۔
حملہ سے ہم نے کیا سیکھا؟
مہران بیس پر ہونے والے حملہ سے ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے کچھ سیکھا یا نہیں لیکن اس واقعہ کی تحقیقات کرنے والے انٹیلی جنس افسران نے بہت کچھ سیکھا ۔ان افسران کو اندازہ ہوا کہ دہشت گردوں کے طور طریقے اور لڑنے کے انداز کتنے بدل گئے ہیں ۔ وہ کتنی جدید ٹیکنا لوجی استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ کتنے ماہر شوٹر ہیں اورفوجیوں کے سے اندازمیں تربیت یافتہ ہیں۔ان د ہشت گردوں کی کارروائی کے کچھ نمایاں نکات یہ ہیں:
فوج کی طرح صف بندی
نیوی کے ایک زخمی سیلرکے مطابق ہماری طرح کے لباس پہنے ہوئے تھے اور ان کی نقل و حرکت ہماری طرح کی تھی۔ یہ حملہ آور فوجی انداز میں کارروائی کر رہے تھے، فوجی انداز میں رابطے کر رہے تھے۔ وہ آپس میں اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں بھی بات کر رہے تھے۔
لباس، ہتھیار اور آلات
اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے کمانڈو نما لباس پہنا ہوا تھا، ان کے پاس نائٹ ویڑن گوگلز (اندھیرے میں دیکھنے کے لیے مخصوص چشمے) اور راکٹ لانچر (آر پی جی) تھے۔ نائٹ ویڑن گوگلز کی عادت ڈالنے کے لیے مہینوں بلکہ سالوں کی تربیت درکار ہوتی ہے۔
منصوبہ بندی
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ان کو دیکھ لیا تھا لیکن ا نہوں نے ہم پر زیادہ توجہ نہیں دی، انہوں نے سیدھا ٹارمیک پر کھڑے دونوں اورائن طیاروں پر راکٹ داغے۔ ا س سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں یہ احکامات یہ تھے کہ طیاروں کو نقصان پہنچائیں۔ اس کے علاوہ یہ حملہ آور اپنی کارروائی میں تبدیلی آسانی سے کرتے نظر آئے اور وہ چھوٹے گروپوں میں بھی تقسیم ہوئے جن کے شاید مختلف مقاصد اور اہداف تھے۔
ماہر نشانہ باز
سکیورٹی آپریشن کے اہلکار کے مطابق یہ حملہ آور ’ماہر نشانہ باز تھے، ہمارے اچھے نشانہ بازوں کے درجے کے۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ حملہ آور نے نائٹ ویثر ن گوگلز کو بھی موثر طریقے سے استعمال کیا جس سے کمانڈوز کے آنے تک ان کو برتری رہی۔ حملہ آوروں کے پاس ایم 16 کاربین اور سنائپر رائفل بھی تھے۔اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ واضح تھا کہ یہ حملہ آور زیادہ سے زیادہ جانی نقصان میں نہیں بلکہ فوجی ساز و سامان کی تباہی پر مرکوز تھے۔ بیس کے باقی طیارے ان کے حملے سے صرف اس لیے بچے کہ نیوی سپاہیوں کی بڑی تعداد ان سے مقابلہ کرنے آگئی۔ ہر چیز بہت تیزی سے ہوئی، چند منٹوں کے اندر ہی طیارے میں آگ بھی لگ چکی تھی اور لڑائی بھی شروع ہو گئی تھی۔عینی شاہدین نے ایک حملہ آور کا خاص ذکر کیا ہے۔ چھوٹا سا نوجوان تھا، جس کی ہلکی سی داڑھی تھی۔ اس نے اپنی ایم 16 چھوڑ کر دو یوزی سب مشین گن لے لی تھی۔ وہ بہت خطرناک تھا اس نے تقریباً 600 گز کے فاصلے سے ایک سپاہی کو صرف ایک گولی مار کر ہلاک کیا۔
Displaying 4 Comments
Have Your Say
  1. Rehan says:

    dear editor.
    ab to mehran base ka bara sari szish banaqab ho chuki hay. bachara saleem shahzad bhe ise waja sa jan ke bazi har gaya, aap bhe carefull rahian. allha kara ya such lekhna wala aur bhe pada hota rahian.
    Rehan Dubai

  2. M. Kashif Jr. says:

    I am a big fan of your website, i am very much happy that you are back after a long time. I have read your whole story, you realy show us the facts. Being a student of M.Sc. Mass Comm. I assume that, this is a very difficult task to show reality to public, or i say this is a very dangerous work then this statement must not be wrong.

  3. Ali Azhar says:

    This is really a clear image of those enemies want to destablize pakistan. I appreciate your effort and hope to see more facts in future.

  4. mazhar says:

    aap ke news site buhat informative hay. is site ke kuch news baad maian ma na akhbaraat maian bhe pahree haian. but ab everyday check kia karoon ga ta ka meri information maian ezeefa ho. thanks Fact .
    Mazhar ch.
    thailand

Leave a comment